بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

شراب کے اشتہارات چھاپنا


سوال

مغربی ممالک میں زیادہ تر ریستورانوں پر فاسٹ فوڈ کے ساتھ ساتھ شراب بھی دستیاب ہوتی ہے اور یہ ریستوران تشہیری مواد میں دیگر کھانوں کے ساتھ شراب کے برانڈ بھی دکھاتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد میں مسلمان بھی روزگار کی خاطر پرنٹنگ اور ایڈورٹائزمنٹ کا کام کرتے ہیں اور تشہیری مواد (مثلا بینرز اور مینو کارڈز) جس پر دل سے نہ چاہتے ہوئے مجبورا شراب وغیرہ جیسی تصاویر اور ان کی تفصیل چھاپنا پڑتی ہے ۔ بہت کم خوش نصیب ایسے ہیں جو "ام الخبائث" کے بغیر کاروبار چلا رہے ہیں۔ براہ مہربانی رہنمائی فرما دیجئۓ کہ کیا روزگار کی خاطر وہاں جو لوگ کراہت کے ساتھ ڈیزائننگ اور پرنٹنگ کے کام میں شراب کی بوتلیں اور تفصیل آرڈر کے مطابق چھاپنے پر مجبور ہیں تو کیا وہ گناہ گار ہیں؟ اگرچہ محدود تعداد میں بغیر شراب کے بھی کام مل جاتا ہے ،لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

جواب

 مسلمان کے لیے جس طرح شراب کا پینا حرام ہے، اسی طرح اس کا بیچنا بھی حرام ہے۔ نیز  اس کے اشتہارات چھاپنا اور اس کی اجرت لینا  بھی مسلمان کےلئے جائز نہیں ۔ لہذا مسلمان کو چاہیئے کہ اگر اس کے بغیر کام نہ ملتا ہو تو کوئی اور دوسراجائزکام کرلے ،اس کام کو چھوڑدے ۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما) البيع الباطل فهو كل بيع فاته شرط من شرائط الانعقاد من الأهلية والمحلية وغيرهما، وقد ذكرنا جملة ذلك في صدر الكتاب ولا حكم لهذا البيع أصلا؛ لأن الحكم للموجود ولا وجود لهذا البيع إلا من حيث الصورة؛ لأن التصرف الشرعي لا وجود له بدون الأهلية والمحلية شرعا كما لا وجود للتصرف الحقيقي إلا من الأهل في المحل حقيقة، وذلك نحو بيع الميتة والدم والعذرة والبول وبيع الملاقيح والمضامين وكل ما ليس بمال، وكذا بيع صيد الحرم والإحرام؛ لأنه بمنزلة الميتة، وكذا بيع الحر؛ لأنه ليس بمال، وكذا بيع أم الولد والمدبر والمكاتب والمستسعى لأن أم الولد حرة من وجه، وكذا المدبر فلم يكن مالا مطلقا والمكاتب حر يدا فلم يكن مالا على الإطلاق، والمستسعى عند أبي حنيفة بمنزلة المكاتب وعندهما حر عليه دين.

وكذا بيع الخنزير من المسلم؛ لأنه ليس بمال في حق المسلم وكذا بيع الخمر؛ لأنها ليست بمتقومة في حق المسلم؛ لأن الشرع أسقط تقومها في حق المسلمين حيث أهانها عليهم فيبطل ولا ينعقد."

(کتاب البیو ع،فصل في حكم البيع،5/ 305 ط: دارالکتب العلمیة، بیروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144603103156

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں