بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اشراق اور چاشت کی نماز کے اوقات


سوال

اشراق کی نماز اور چاشت کی نماز کا وقت کیا ہے؟

جواب

اشراق:  سورج طلوع ہونے کے بعد جب سورج میں اتنی تیزی آجائے کہ اس پر کچھ دیر نظر جمانا مشکل ہو (تقریبا سورج طلوع ہونے کے 10 سے 15 منٹ بعد) یہ وقت اشراق کا افضل وقت ہے، اس وقت کے بعد زوال سے پہلے پہلے اشراق کی نماز ادا کی جاسکتی ہے۔

چاشت :   چاشت کا افضل وقت طلوع شمس سے زوال تک کے مجموعی وقت کا ایک چوتھائی وقت گزرنے کے بعد ہے، مثلا: اگر سورج طلوع ہونے سے لے کر زوال تک کا وقت چھ گھنٹے ہو تو سورج ہونے کے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد سے زوال سے پہلے تک کا وقت چاشت کا افضل وقت ہے، باقی اس وقت سے پہلے بھی یعنی طلوع شمس کے بعد (10 سے 15 منٹ بعد ) بھی چاشت کی نماز ادا کی جاسکتی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اشراق اور چاشت پڑھنے کا افضل وقت الگ الگ ہے، لیکن دونوں نمازوں کے شروع ہونے اور ختم ہونے کا وقت ایک ہی ہے،  لہذا اشراق اور چاشت کی نماز ایک ہی وقت میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"("ثم صل ) ،أي: صلاة الإشراق فإنها مبدأ الضحى، أو صلاة الضحى فإنها منتهية إلى قرب الاستواء."

(كتاب الصلاة، باب اوقات النهي، ج:2، ص:822، ط:دارالفكر بيروت)

وفیہ ایضاً:

"باب صلاة الضحى، قال الطيبي: المراد وقت الضحى، وهو صدر النهار حين ترتفع الشمس وتلقي شعاعها اهـ. قيل: التقدير صلاة وقت الضحى، والظاهر أن إضافة الصلاة إلى الضحى بمعنى " في " كصلاة الليل وصلاة النهار، فلا حاجة إلى القول بحذف المضاف، وقيل: من باب إضافة المسبب إلى السبب كصلاة الظهر، وقال ميرك: الضحوة بفتح المعجمة وسكون المهملة ارتفاع النهار، والضحى بالضم والقصر شروقه، وبه سمي صلاة الضحى، والضحاء بالفتح والمد هو إذا علت الشمس إلى زيغ الشمس فما بعده، وقيل: وقت الضحى عند مضي ربع اليوم إلى قبيل الزوال، وقيل: هذا وقته المتعارف، وأما وقته فوقت صلاة الإشراق، وقيل: الإشراق أول الضحى."

(كتاب الصلاة، باب اوقات الصلاة، ج:3، ص:977، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(مع شروق) إلا العوام فلا يمنعون من فعلها؛ لأنهم يتركونها، والأداء الجائز عند البعض أولى من الترك كما في القنية وغيرها (واستواء)۔۔۔(قوله: مع شروق) وما دامت العين لا تحار فيها في حكم الشروق كما تقدم في الغروب أنه لا يصح كما في البحر ح. أقول: ينبغي تصحيح ما نقلوه عن الأصل للإمام محمد من أنه ما لم ترتفع الشمس قدر رمح فهي في حكم الطلوع؛ لأن أصحاب المتون مشوا عليه في صلاة العيد حيث جعلوا أول أوقاتها من الارتفاع ولذا جزم به هنا في الفيض ونور الإيضاح."

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:371، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(و) ندب (أربع فصاعدا في الضحى) على الصحيح من بعد الطلوع إلى الزوال ووقتها المختار بعد ربع النهار۔۔۔(قوله من بعد الطلوع) عبارة شرح المنية من ارتفاع الشمس (قوله ووقتها المختار) أي الذي يختار ويرجح لفعلها وهذا عزاه في شرح المنية إلى الحاوي، وقال: لحديث زيد بن أرقم أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال «صلاة الأوابين حين ترمض الفصال» رواه مسلم. وترمض بفتح التاء والميم: أي تبرك من شدة الحر في أخفافها. اهـ ."

(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ج:2 ص:23،22، ط:سعيد)

احسن الفتاوی میں ہے:

"سوال: مندرجہ ذیل نوافل کے اوقات وضاحت سے تحریرفرمائیں؛

(1)اشراق کا وقت طلوعِ آفتاب سے کتنے منٹ بعد شروع ہوتا ہے؟ اور آخری وقت طلوعِ آفتاب کے بعد کتنے گھنٹے تک رہتا ہے؟

(2) چاشت کا وقت طلوعِ آفتاب سے کنتے گھنٹے بعد شروع ہوتا ہے؟ اور آخری وقت کتنے گھنٹے تک رہتا ہے؟

الجواب باسم ملہم الصواب:

(1)طلوع کے بعد جب آفتاب میں اتنی دیر تیزی آجائے کہ اس پر کچھ دیر تک نظر جمانا مشکل ہو، تو اشراق کا وقت شروع ہوجاتا ہے، اس کی مقدار ہر مقام اور ہر موسم میں مختلف ہوتی ہے۔۔۔ اشراق کا وقت نصف النہار تک رہتا ہے، مگر شروع میں پڑھنا افضل ہے۔

(2)چاشت کا وقت اشراق کی نماز کے بعد متصل شروع ہوکر نصف النہار تک ہے، اور اس کا افضل وقت دن کا ایک چوتھائی حصہ گزرنے کے بعد ہے۔"

(کتاب الصلاۃ، اشراق، چاشت اور تہجد کے اوقات، ج:3، ص:467، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401100989

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں