بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں اشراق کے وقت داخل ہونے والا شخص اشراق کےنفل ادا کرے گا یا تحیۃ المسجد کے نفل؟


سوال

 مسجد  میں اشراق کے وقت داخل ہونے والا شخص اشراق کےنفل ادا کریں یا تحیۃ المسجد کے نفل؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد میں داخل ہوتے ہی بیٹھنے سے پہلے جو بھی نماز (خواہ فرض ہو، یا سنت،یا نفل) ادا کی جائےتو وہ تحیۃ المسجد کی نماز کے بھی قائم مقام ہوجاتی ہے، اگر چہ اُس میں تحیۃ المسجد کی نیت نہیں کی گئی ہو،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر اشراق کے وقت مسجد میں داخل ہونے والا شخص تحیۃ المسجد پڑھ کر پھر اشراق پڑھے تو شرعًا کوئی حرج کی بات نہیں، اشراق کے وقت مسجد میں داخل ہوتے ہی اشراق پڑھنا ضروری نہیں ہے، تاہم اگر آنے والااشراق کی نماز پڑھ لے تو اُس سے تحیۃ المسجد کی نماز بھی ادا ہوجائے گی اور اس کو تحیۃ المسجد کی نماز کا ثواب بھی مل جائے گا، اس صورت میں تحیۃ المسجد الگ سے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"كداخل المسجد إذا اشتغل بالفرض ناب ذلك مناب ‌تحية ‌المسجد لحصول تعظيم المسجد."

(كتاب الصلاة، فصل في كيفية اداء سجدة التلاوة، 190/1، ط: دار الكتب العلمية)

وفیہ ایضًا:

"وصار كمن دخل المسجد وأدى فرض الوقت، قام ذلك مقام ‌تحية ‌المسجد."

(كتاب الحج، فصل في مكان الإحرام، 166/2، ط: دار الكتب العلمية)

درر الحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:

"(وسن‌‌ تحية المسجد) وهي ركعتان قبل القعود لقوله - عليه الصلاة والسلام - «إذا دخل أحدكم المسجد فلا يجلس حتى يركع ركعتين» (وأداء الفرض ينوبها).

قال الملا خسرو:  (قوله وأداء الفرض ينوبها) قدمنا أن كل صلاة أداها عند الدخول تنوب عنها بلا نية التحية اهـ."

(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، 116/1، ط: دار إحياء الكتب العربية)

البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"فإن الفرض أو السنة تغني عن ‌تحية ‌المسجد."

(كتاب الحج، باب الإحرام، 357/2، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"ونظيره ‌تحية ‌المسجد تندرج في أي صلاة صلاها."

(كتاب الحج، 2/ 456، ط: سعيد)

غمز عیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر میں ہے:

"وتحية المسجد ‌وينوب ‌عنها ‌كل ‌صلاة أداها عند الدخول وقيل: وبعد القعود وركعتا الإحرام، كذلك تنوب عنها كل صلاة فرضا كانت أو نفلا."

(الفن الأول في القواعد الكلية، القاعدة الأولى : الأمور بمقاصدها، ص: 28، ط: دار الكتب العلمية)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"لا خلاف بينهم في أن تحية المسجد تتأدى بفرض أو نفل."

(حرف التاء، تحية، تحية المسجد، 305/10، ط: دار السلاسل)

بہشتی گوہر میں ہے:

"اگر مسجد میں آتے ہی کوئی فرض نماز پڑھی جائے، یا اور کوئی سنت ادا کی جائےوہی فرض یا سنت تحیۃ المسجد کے قائم مقام ہوجائے گی، یعنی اس کے پڑھنے سے تحیۃ المسجد کا ثواب  بھی مل جائے گا، اگر چہ اس میں تحیۃ المسجد کی نیت نہیں کی گئی۔"

(کتاب الصلاۃ، عنوان: تحیۃ المسجد، ص: 54، ط: مکتبۃ البشرٰی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100216

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں