بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اشراق کی رکعت


سوال

 اشراق میں افضل و مسنون دو رکعتیں ہیں یا چار؟ یعنی دو رکعت کا معمول رکھنا چاہیے یا چار کا؟ نیز اگر کوئی شخص قضائے عمری کی نیت سے اشراق میں نفل کی جگہ فجر کی قضا  کا معمول رکھے تو کیا وہ اشراق کی نماز کے اجر سے محروم رہے گا؟ افضل و مسنون طریقہ کی رہنمائی فرما دیں!

جواب

اشراق  کے وقت میں احادیث میں دو رکعتوں کا بھی ثبوت ہے اور چار کا بھی  اور چار زیادہ افضل ہے۔

اگر قضائے عمری باقی ہو تو اشراق کے وقت میں بھی قضا ہی ادا کرے، امید ہے کہ اللہ تعالی اس کو وہ ثواب بھی عطا فرمادیں، تاہم افضل یہ ہوگا کہ دو رکعت فجر کی قضا اور دو رکعت اشراق کی نیت سے پڑھ لے۔

سنن الترمذي ت بشار (1/ 727):

"عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى الغداة في جماعة ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تامة تامة تامة".

 ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ عنہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے فجر کی نماز با جماعت ادا کی، پھر سورج طلوع ہونے تک ذکر الہی میں مشغول رہا، پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں، تو  یہ اس کے لیے مکمل ، مکمل، مکمل حج اور عمرے کے اجر کے برابر ہوں گی۔

"يا ابن آدم اركع لي أربع ركعات أول النهار أكفك آخره". (الترمذی، الوتر، ما جاء في صلاة الضحی، ح:475)

ترجمہ: "اے آدم کے بیٹے! دن کے ابتدائی حصے میں خالص میرے لیے چار رکعتیں پڑھ  میں تجھے اس دن کی شام تک کفایت کروں گا۔" فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109203177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں