بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اشراق کی نماز کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے اسی جگہ بیٹھے رہنا


سوال

عرض ہے کہ اشراق کی نماز پڑھنے سے مقبول حج و عمرہ کا ثواب کن صورتوں میں ملتا ہے؟ میں نے ایک عالم دین سے سنا ہے کہ فجر کی نماز پڑھ کر اسی جگہ بیٹھے رہیں اور اشراق کا وقت ہونے پر دو رکعت پڑھنے پر ہی مقبول حج و عمرہ کا ثواب ملے گا،  اس سے پہلے اٹھ  جانے سے اگر بعد میں پڑھ بھی لیں تو عام نفل شمار ہوگا؟

جواب

اشراق کی نماز کی حدیثِ  مبارک میں بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے:

حضرت انس رضي الله تعالي  عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے اور پھر اپنی جگہ بیٹھا رہے؛ یہاں تک کہ اشراق کا وقت ہو جائے اور پھر اٹھ کر (کم از کم) دو رکعات اشراق کی نماز پڑھ لے تو اس کو ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب ملتا ہے۔ 

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ : جو شخص صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اپنی نماز کی جگہ پر بیٹھا رہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہونے اور روشن ہونے کے بعد دو رکعت پڑھے اور اس دوران صرف خیر ہی کہے تو اس کے گناہ معاف کردیے جائیں گے اگرچہ وہ گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔

 اور  اشراق کی نماز کی مذکورہ  مخصوص فضیلت اور  مکمل ثواب  کا مستحق وہ شخص ہے جو  فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرے یا عذر کی وجہ سے گھر میں ادا کرکے  وہیں ذکر و اَذکار  میں  مشغول رہے، اور اس درمیان کسی دنیاوی کام میں مصروف نہ ہو، یہاں تک کہ  اشراق کا وقت ہوجائے تو اشراق کی نماز ادا کرلے۔

نیز اشراق کی  نماز کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے فجر کی نماز کے بعد اسی جگہ بیٹھے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ  وہ اسی  جگہ ذکر واذکار اور نیک کاموں میں مشغول رہے، خواہ کھڑے ہوکر، یا بیٹھ کر یا لیٹ کر، البتہ بیٹھ کر ذکر کرتے رہنا زیادہ افضل ہے،  الا یہ کہ  وہ کسی اور دینی کام کے لیے وہاں سے کھڑا ہو مثلًا بیت اللہ کے طواف کے لیے، یا جنازہ کی نماز کے لیے، یا قرآن وحدیث کے درس وغیرہ میں حاضر ہونے کے لیے۔

ملحوظ رہے کہ اشراق کی نماز کے ایک تو وہ فضائل ہیں جو مخصوص طور پر وارد ہیں، اور ایک وہ فضائل ہیں جو عمومی طور پر وارد ہیں؛ لہٰذا اگر کوئی شخص فجر کے بعد کسی دنیاوی کام میں مشغول ہوگیا ہو تو اسے بھی اشراق کی نماز  کی فضیلت مل جائے  گی، گو مخصوص فضیلت کا وعدہ نہیں ہے۔

كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال(2/ 152):

"من صلى الفجر فقعد في مقعده، فلم يلغ بشيء من أمر الدنيا يذكر الله عز وجل، حتى يصلي الضحى أربع ركعات، خرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه".

جامع الأصول في أحاديث الرسول (9/ 401):

"قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم: مَنْ صَلَّى الفجر في جماعة ، ثم قَعَدَ يذكرُ الله ، حتى تطلُع الشمس ، ثم صلى ركعتين ، كانت له كأجر حجة وعمرة ، قال : قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم : «تامة تامة تامة» أخرجه الترمذي."

سنن الترمذي ت بشار (1/ 727):

"عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى الغداة في جماعة ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تامة تامة تامة".

مرقاة المفاتيح(3/982):

"(وعن معاذ بن أنس الجهني) : منسوب إلى قبيلة جهينة مصغرًا. (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قعد) ، أي: استمر (في مصلاه) : من المسجد أو البيت مشتغلًا بالذكر أو الفكر، أو مفيدًا للعلم، أو مستفيدًا، أو طائفًا بالبيت (حين ينصرف) ، أي: يسلم (من صلاة الصبح حتى يسبح) ، أي: إلى أن يصلي (ركعتي الضحى)، أي: بعد طلوع الشمس وارتفاعها (لا يقول) ، أي: فيما بينهما (إلا خيرًا) : وهو ما يترتب عليه الثواب، واكتفى بالقول عن الفعل. (غفر له خطاياه) ، أي: الصغائر، ويحتمل الكبائر (وإن كانت أكثر من زبد البحر ". رواه أبو داود)."

(مرقاة المفاتيح 3 / 982 ط: دار الفكر)

الفتوحات الربانية علي الاذكار النواوية (3/64):

"قال في الحرز: (قوله: قعد) أي استمر على حال ذكره سواء كان قائما او قاعدا أو مضطجعا، والجلوس أفضل الا اذا عارضه أمر كالقيام لطواف أو صلاة جنازة أو لحضور  درس  ونحوها."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202779

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں