بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اشراق کی نماز گھر میں ادا کرنا


سوال

کیا اشراق کی نماز گھر میں ، آفس میں   پڑھ   سکتے ہیں،  کبھی کبھی رات کی ڈیوٹی رہتی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مشکل ہوتا ہے،  ایسے میں فجر کی نماز تنہا پڑھنا پڑتی ہے، اس حالت میں اشراق کی نماز کیا حکم ہے؟

جواب

اشراق کی نماز گھر یا آفس میں بھی ادا  کی جاسکتی ہے،  مسجد میں ادا کرنا ضروری نہیں ہے، البتہ  ملازمت کی وجہ سے فجر کی نماز کو جماعت سے چھورنے کی مستقل عادت بنالینا درست نہیں ہے، فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کرنا  ضروری ہے۔

نیز یہ ملحوظ رہے کہ اشراق کی نماز کی حدیثِ  مبارک میں جو فضیلت وارد ہوئی ہے وہ  یہ ہے:

”حضرت انس رضي الله تعالي  عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے اور پھر اپنی جگہ بیٹھا رہے؛ یہاں تک کہ اشراق کا وقت ہو جائے اور پھر اٹھ کر (کم از کم) دو رکعات اشراق کی نماز پڑھ لے تو اس کو ایک مکمل حج اور ایک عمرے کا ثواب ملتا ہے۔ “

اسی طرح ایک اور حدیث مبارک میں ہے:

”حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ : جو شخص صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اپنی نماز کی جگہ پر بیٹھا رہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہونے اور روشن ہونے کے بعد دو رکعت پڑھے اور اس دوران صرف خیر ہی کہے تو اس کے گناہ معاف کردیے جائیں گے اگرچہ وہ گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔“

لہذا   اشراق کی نماز کی مذکورہ  مخصوص فضیلت اور  مکمل ثواب  کا مستحق وہ شخص ہے جو  فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرے یا عذر کی وجہ سے گھر میں ادا کرکے  وہیں ذکر و اَذکار  میں  مشغول رہے، اور اس درمیان کسی دنیاوی کام میں مصروف نہ ہو، یہاں تک کہ  اشراق کا وقت ہوجائے تو اشراق کی نماز ادا کرلے۔نیز  اگر کوئی شخص فجر کے بعد کسی دنیاوی کام میں مشغول ہوگیا ہو تو اسے بھی اشراق کے نوافل کی فضیلت مل جائے  گی،  تاہم  مذکورہ   فضیلت کے لیے مخصوص شرط  (فجر سے اشراق تک ذکر وعبادت  میں مشغولیت) کی رعایت بھی  ضروری ہے۔  

سنن الترمذی میں ہے:

"عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى الغداة في جماعة ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تامة تامة تامة."

 (1/ 727، باب ذكر ما يستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاة الصبح، ط: دار الغرب الإسلامي)

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"وعن معاذ بن أنس الجهني رضي الله عنه، قال: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قعد في مصلاه حين ينصرف من صلاة الصبح، حتى يسبح ركعتي الضحى، لا يقول إلا خيرا، غفر له خطاياه وإن كانت أكثر من زبد البحر» ". رواه أبو داود.

"(وعن معاذ بن أنس الجهني) : منسوب إلى قبيلة جهينة مصغرًا. (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قعد) ، أي: استمر (في مصلاه) : من المسجد أو البيت مشتغلًا بالذكر أو الفكر، أو مفيدًا للعلم، أو مستفيدًا، أو طائفًا بالبيت (حين ينصرف) ، أي: يسلم (من صلاة الصبح حتى يسبح) ، أي: إلى أن يصلي (ركعتي الضحى)، أي: بعد طلوع الشمس وارتفاعها (لا يقول) ، أي: فيما بينهما (إلا خيرًا) : وهو ما يترتب عليه الثواب، واكتفى بالقول عن الفعل. (غفر له خطاياه) ، أي: الصغائر، ويحتمل الكبائر (وإن كانت أكثر من زبد البحر ". رواه أبو داود)."

(3/  982، باب صلاة الضحى، ط: دارالفکر، بیروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144410101299

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں