بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اشراق کے نوافل کی تعداد، وقت اور کیفیت


سوال

اشراق کی نماز کی کتنی رکعات ہیں؟ اور کب پڑھنی چاہیے؟ کیا اشراق کی نماز چار  رکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھ  سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

اشراق کی نماز طلوع آفتاب کے کم از کم دس منٹ بعد ، کم سے کم دو رکعت ہیں، جیسے عام نماز  ادا کی جاتی ہے، اشراق کی نماز کا بھی  وہی طریقہ ہے، دل میں نفل نماز کی نیت ہو، اشراق کا لفظ کہنا ضروری نہیں ہے، اگر اشراق کے وقت کے نفل کی نیت کی تو بھی درست ہے۔ 

اگر سورج طلوع ہونے کے پندرہ منٹ بعد پڑھی جائے تو زیادہ بہتر ہے، اور بعض علماء نے احتیاطاً سورج طلوع ہونے کے بیس منٹ بعد پڑھنے کو زیادہ بہتر کہاہے  اور اس کا مدار وہ روایت ہے جس میں سورج طلوع ہوجانے کے بعد ایک یا دو نیزے بلند ہونے کا ذکر ہے، اور سورج طلوع ہوکر تقریباً دس منٹ میں ایک نیزہ بلند ہوجاتاہے، اور بیس منٹ میں دو نیزہ کی مقدار، لہٰذا جن اہلِ علم نے دس منٹ مقدار لکھی ہے وہ کم سے کم وقت ہے، اور جنہوں نے بیس منٹ لکھا انہوں نے دو نیزے کی مقدار لے کر احتیاط والا قول لیا ہے۔

واضح رہے کہ سورج نکلنے سے کم از کم دس منٹ بعد سے زوال تک اشراق کی نماز  پڑھی جا سکتی ہے، البتہ  اشراق کی نماز کا مکمل ثواب اور مخصوص فضیلت حاصل کرنے کے لیے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد سے لے کر اشراق پڑھنے تک اسی جگہ بیٹھنا ضروری ہے،  کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے اور پھر اپنی جگہ بیٹھا رہے؛ یہاں تک کہ اشراق کا وقت ہو جائے اور پھر اٹھ کر (کم از کم) دو رکعات اشراق کی نماز پڑھ لے تو اس کو ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب ملتا ہے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد چہارم ص: ۲۲۶)

سنن الترمذي ت بشار (1/ 727):

"عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى الغداة في جماعة ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تامة تامة تامة".

یعنی جو شخص فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے پھر اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہے، یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے، پھر اس کے بعد دو رکعت پڑھے تو اس کو کامل حج و عمرہ کا ثواب ملے گا۔

نیز اشراق کی نماز سمیت دن کے وقت کے تمام نوافل میں ایک سلام کے ساتھ چار رکعت اکٹھی پڑھنا درست ہے، بلکہ افضل بھی  یہی ہے۔

 جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے:

كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال(2/ 152):

"من صلى الفجر فقعد في مقعده، فلم يلغ بشيء من أمر الدنيا يذكر الله عز وجل، حتى يصلي الضحى أربع ركعات، خرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 15):

"(وتكره الزيادة على أربع في نفل النهار، وعلى ثمان ليلاً بتسليمة)؛ لأنه لم يرد، (والأفضل فيهما الرباع بتسليمة)، وقالا: في الليل المثنى أفضل، قيل: وبه يفتى.

(قوله: لأنه لم يرد) أي لم يرد عنه صلى الله عليه وسلم أنه زاد على ذلك. والأصل فيه التوقيف كما في فتح القدير: أي فما لم يوقف على دليل المشروعية لا يحل فعله بل يكره، أي اتفاقاً كما في منية المصلي، أي من أئمتنا الثلاثة، نعم وقع الاختلاف بين المشايخ المتأخرين في الزيادة على الثمانية ليلاً، فقال بعضهم: لا يكره، وإليه ذهب شمس الأئمة السرخسي، وصححه في الخلاصة، وصحح في البدائع الكراهة، قال: وعليه عامة المشايخ، وتمامه في الحلية والبحر.

(قوله: والأفضل فيهما) أي في صلاتي الليل والنهار الرباع. وعبارة الكنز: رباع بدون أل، وهو الأظهر؛ لأنه غير منصرف للوصفية والعدل عن أربع أربع أي ركعات رباع: أي كل أربع بتسليمة. (قوله: قيل: وبه يفتى) عزاه في المعراج إلى العيون. قال في النهر: ورده الشيخ قاسم بما استدل به المشايخ للإمام من حديث الصحيحين عن عائشة - رضي الله عنها - «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لايزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعةً، يصلي أربعاً لا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم أربعاً فلا تسأل عن حسنهن وطولهن ثم يصلي ثلاثاً» وكانت التراويح ثنتين تخفيفاً، وحديث «صلاة الليل مثنى مثنى» يحتمل أن يراد به شفع لا وتر، وترجحت الأربع بزيادة منفصلة لما أنها أكثر مشقة على النفس، وقد قال صلى الله عليه وسلم: «إنما أجرك على قدر نصبك» اهـ بزيادة، وتمام الكلام على ذلك في شرح المنية وغيره".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202152

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں