بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اشراق کا وقت سورج طلوع ہونے کے دس، بارہ یا بیس منٹ کے بعد ہوتا ہے؟


سوال

 اشراق کا وقت جو بچپن سے سنتے آیا اور دیکھا بھی کہ ۲۰ منٹ پر  اشراق کی نماز پڑھی جاتی تھی لیکن جب سے ڈیجیٹل گھڑیاں آئی ہے تو اس میں بارہ منٹ کے بعد وقت داخل ہو جاتا ہے حالاں کہ سادہ کیلنڈر میں ۱۷ منٹ لکھا ہوا ہے اور اس پر بعض جگہ مسجدوں میں جھگڑا بھی ہوا، تبلیغی جماعت والے فتوی کا ذکر کرتے ہے کہ ۱۲ منٹ کا فتوی ہے،  کچھ ۱۲ منٹ اور کچھ ۲۰ منٹ میں پڑھ رہے ہے اور اکثر جگہ ۲۰ منٹ لکھا ہوا ہے،  گھڑیوں والوں کے بقول تمام علما کا اس پر اتفاق ہے کہ ۱۲ منٹ پر پڑھی جائے اس لیے ہم نے ۱۲ منٹ کا سوفٹ وئیر بنایا ہے کیا پہلے لوگ صحیح تھے یا موجودہ دور کے مفتیان حضرات؟ ہم کس پر عمل کریں؟

جواب

     رسول اللہ ﷺ نے طلوعِ آفتاب کے وقت نماز ادا کرنے سے منع فرمایاہے، اور سورج اچھی طرح روشن ہوجانے کے بعد نماز ادا کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے، اب سورج کتنا روشن ہو تو نماز ادا کی جائے گی؟ اس کی مقدار بیان کرتے ہوئے بعض احادیث میں "قدر رمح أو رمحین"  یعنی طلوع کے بعد سورج کے ایک یا دو نیزے بلند ہونے کو معیار قرار دیا ہے، چوں کہ احادیث اور فقہی عبارات میں مذکورہ الفاظ میں مقدار بیان کی گئی ہے تو منٹ کے اعتبار سے وقت متعین کرنے میں بھی ہمارے اکابر کی آراء مختلف ہوئیں:

بعض اہلِ فتویٰ نے سورج طلوع ہونے کے تقریباً دس منٹ بعد ہی اشراق کا وقت لکھا ہے اور بعض اکابر نے بارہ پندرہ منٹ بعد اشراق ادا کرنے کا لکھا ہے، جب کہ دیگر بعض اکابر (مثلاً: حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندہلوی رحمہ اللہ) نے احتیاطاً طلوعِ آفتاب کے بعد بیس منٹ سے پہلے اشراق ادا کرنے کو مکروہ لکھاہے۔

    منشأ اختلاف روایتِ حدیث کے الفاظ ہیں کہ ایک یا دو نیزے بلند ہونے کی مقدار کے بعد اشراق کی اجازت ہے، ایک نیزہ تقریباً دس منٹ کی مقدار ہے اور دو نیزہ بیس منٹ۔ معلوم ہواکہ درحقیقت ان اقوال میں تضاد نہیں ہے، از روئے فتویٰ تو طلوعِ آفتاب کے دس منٹ بعد ہی اشراق ادا کی جاسکتی ہے، جب کہ زیادہ احتیاط بیس منٹ بعد پڑھنے میں ہے، اور بارہ پندرہ منٹ درمیانہ اور معتدل قول ہے؛ لہٰذا اگر کسی کے پاس وقت مختصر ہوتو وہ طلوعِ آفتاب کے دس بارہ منٹ بعد ہی اشراق پڑھ لیا کرے، لیکن اگر وقت میں گنجائش ہو اور کوئی مشغولیت نہ ہو تو احتیاط پر عمل کرلینا چاہیے۔

عن أنس رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: من صلی الفجر في جماعة ثم قعد يذكر اللّٰه حتی تطلع الشمس، ثم صلی ركعتین كانت له كأجر حجة وعمرة، قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم تامة تامة۔

(سنن الترمذي ۱؍۱۳۰)

قال الطیبي:

 أي ثم صلی بعد أن ترتفع الشمس قدر رمح حتی یخرج وقت الکراهة، وهذه الصلاة تسمی صلاة الإشراق.

 

(مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح، ۲؍۲۴) 

ردالمحتار:

وما دامت العین لا تحار فیها فهي في حکم الشروق، کما تقدم في الغروب أنه الأصح، کما في البحر. أقول: ینبغي تصحیح ما نقلوه عن الأصل للإمام محمد من أنه ما لم ترتفع الشمس قدر رمح فهی في حکم الطلوع ؛ لأن أصحاب المتون مشوا علیه في صلاة العید حیث جعلوا أوّل وقتها من الإرتفاع ولذا جزم به هنا في الفیض ونور الإیضاح.

(ردالمحتار على الدر المختار، کتاب الصلاة، مطلب یشترط العلم بدخول الوقت،۱/۳۷۱)

الدرالمختار:

وتأخیر عصر مالم یتغیر ذكاء بأن لا تحار العین فیها في الأصح.

وفي الرد:

صححه في الهدایة وغیرها وفي الظهیریة: إن أمکنه أطالة النظر فقد تغیرت، وعلیه الفتوی. وفي النصاب وغیره: وبه نأخذ، وهو قول أئمتنا الثلاثة ومشایخ بلخ، کذا في الفتاویٰ الصوفیة. وبعد سطر، وقیل: حد التغیر أن یبقى للغروب أقل من رمح. وقیل: أن یتغیر الشعاع علی الحیطان، کما في الجوهرة. ابن عبد الرزاق.

(الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، مطلب في طلوع الشمس من مغربها، ۱/۳۶۷-۳۶۸)

حاشية الطحطاوي:

 أولها عند طلوع الشمس إلی أن ترتفع الشمس وتبیض قدر رمح أو رمحین.

(حاشية الطحطاوي علی المراقي ۱۰۰)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144202200599

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں