بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اشراق اور چاشت کی نماز کا وقت سورج طلوع ہونے کے کتنی دیر کے بعد شروع ہوتا ہے؟


سوال

سورج  نکلنے  کے  بعد اشراق اور  چاشت مثلًا  سورج نکلنے کے کتنے منٹ بعد نماز پڑھی جائے؟ اور چاشت کا وقت اسی نقطہ نظر سے کہ سورج نکلنے سے کتنے گھنٹے بعد پڑھی جائے؟ عوام کو حساب کتاب کے چکر میں سمجھ نہیں آتی ،  مثلًا  اسلام آباد میں سورج  5 بجے نکلتا  ہے تو  اشراق کی نماز  کب شروع کی جائے اور چاشت کا وقت کتنے بجے شروع  ہوجائے گا؟

جواب

سورج نکلنے کے کم از کم دس منٹ بعد سے استواءِ شمس  (زوال سے پہلے) تک اشراق کی نماز کا وقت ہے، البتہ اول وقت میں پڑھنا افضل ہے، اور احتیاطًا سورج طلوع ہونے کے پندرہ بیس منٹ بعد پڑھی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

  اور چاشت کا وقت بھی  یہی  ہے، البتہ اس کا افضل وقت (مجموعہ وقت کے) ایک چوتھائی گزرنے کے بعد ہے، مثلًا: اگر سورج طلوع ہونے سے لے کر زوال تک کا وقت چھ  گھنٹے  ہو تو سورج طلوع ہونے کے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد سے زوال سے پہلے تک جس وقت بھی چاشت پڑھے یہ افضل ہوگا۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ اشراق اور چاشت پڑھنے کا افضل وقت  اگرچہ مختلف ہے، لیکن دونوں نمازوں کے شروع ہونے اور ختم ہونے کا وقت ایک ہی ہے، اسی لیے اشراق اور چاشت کی نماز ایک ہی وقت میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة (2/ 22):

’’(و) ندب (أربع فصاعداً في الضحى) على الصحيح من بعد الطلوع إلى الزوال، و وقتها المختار بعد ربع النهار.‘‘

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"(ثم صل) أي صلاة الإشراق فإنها مبدأ الضحى أو صلاة الضحى، فإنها منتهية إلى قرب الاستواء".

(مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح 2/822)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 977):

’’ باب صلاة الضحى: قال الطيبي: المراد وقت الضحى، وهو صدر النهار حين ترتفع الشمس وتلقي شعاعها اهـ. قيل: التقدير صلاة وقت الضحى، والظاهر أن إضافة الصلاة إلى الضحى بمعنى "في" كصلاة الليل وصلاة النهار، فلا حاجة إلى القول بحذف المضاف، وقيل: من باب إضافة المسبب إلى السبب كصلاة الظهر، وقال ميرك: الضحوة بفتح المعجمة وسكون المهملة ارتفاع النهار، والضحى بالضم والقصر شروقه، وبه سمي صلاة الضحى، والضحاء بالفتح والمد هو إذا علت الشمس إلى زيغ الشمس فما بعده، وقيل: وقت الضحى عند مضي ربع اليوم إلى قبيل الزوال، وقيل: هذا وقته المتعارف، وأما وقته فوقت صلاة الإشراق، وقيل: الإشراق أول الضحى.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202212

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں