بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اشراق، چاشت، اوابین کی نماز کا وقت، رکعات اور فضیلت


سوال

اشراق، چاشت، اوابین کی نماز کا وقت، رکعات اور فضیلت تحریر کریں۔

جواب

اشراق کی نمازکی کم از کم دو رکعات ہیں اس نماز کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایاکہ: جوشخص صبح کی نمازجماعت سے پڑھے، پھر بیٹھا ذکر الہی کرتا رہے، یہاں تک کہ، سورج نکل جائے،پھر دو رکعت (اشراق کی )نماز پڑھے،تو اسے حج وعمرہ کاثواب ملے گا، ایک اور روایت میں ہے،(گناہوں سے ایساپاک ہوجائےگاجیساکہ) اس کی ماں نے (آج )جنا ہو،حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی علیہ وسلم نے فرمایاکہ:جس نے اشراق کی نماز کی پابندی کی تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے گو اس کے گناہ سمندر کے جھاگ کے برابر کیوں نہ ہو ۔

سنن الترمذی میں ہے:

"عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى الغداة في جماعة ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تامة تامة تامة."

(أبواب السفر، باب ذكر ما يستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاة الصبح حتى تطلع الشمس، ج:٢، ص:٤٨١، ط:الحلبي)

وفیہ ایضاً:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من حافظ على شفعة الضحى غفر له ذنوبه وإن كانت مثل زبد البحر."

(أبواب الوتر، باب ما جاء في صلاة الضحى، ج:٢، ص:٣٤١، ط:الحلبي)

کنز العمال میں ہے:

"من قام إذا استعلت الشمس، فتوضأ فأحسن وضوءه، ثم قام فصلى ركعتين غفر له خطاياه أو قال كان كما ‌ولدته أمه."

(كتاب الصلاة، الباب السابع في صلاة النوافل، الفصل الثاني: في السنن والنوافل الراتبة، ج:٧، ص:٨١٠، ط:مؤسسة الرسالة)

سنن الترمذی میں ہے:

"عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى الغداة في جماعة ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين..."

(أبواب السفر، باب ذكر ما يستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاة الصبح حتى تطلع الشمس، ج:٢، ص:٤٨١، ط:الحلبي)

چاشت کی نماز کی کم ازکم رکعات دو اور زیادہ سے زیادہ رکعات بارہ ہیں، جب کہ افضل اور اوسط آٹھ رکعات ہیں ،اس نماز  کے متعلق حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :انسان کے جسم میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں، اس پر ہر جوڑ کا صدقہ لازم ہے، چاشت کی دورکعت ان تمام جوڑوں کی طرف سے صدقہ ہے، اسی طرح ایک روایت میں ہےکہ، چاشت کی پابندی اواب(اللہ کی طرف رجوع اور متوجہ رہنے والے)کرتے ہیں،حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: جنت میں ایک دروازہ ہے، جسے"دروازہ چاشت" کہاجاتاہے،جب قیامت کا دن ہوگا،ایک منادی پکار لےگاکہ،کہاں ہیں وہ لوگ جو چاشت کی پابندی کرتے ہیں؟ یہ تمہارا دروازہ ہے، اللہ کی رحمت سے  تم اس میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے دوست یعنی رسواللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھےتین چیزوں کی نصیحت فرمائی کہ، جب تک زندہ رہو تواسے نہ چھوڑو،ان میں سے ایک چیز، چاشت کی نماز ہے۔

معالم السنن شرح سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن أبي ذر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: يصبح على كل سلامى من بني آدم صدقة فتسليمه على من لقي صدقة وأمره بالمعروف صدقة ونهيه عن المنكر صدقة وإماطة الأذى عن الطريق صدقة وبضعته أهله صدقة ويجزي من ذلك كله ركعتا الضحى.قلت: السلامى عظام أصابع اليد والرجل ومعناه عظام البدن كلها يريد أن في كل عضو ومفصل من بدنه عليه صدقة."

(كتاب الصلاة، ومن باب من فاتته متى يقضيها، ج:١، ص:٢٧٨، ط:المطبعة العلمية حلب)

الاستذکار لابن عبدالبر میں ہے:

"وحديث أبي ذر أيضا أوصاني خليلي بثلاث لا ندعهن إن شاء الله أبدا صلاة ‌الضحى وصيام ثلاثة أيام من كل شهر والوتر قبل النوم."

(كتاب صلاة الجماعة، باب صلاة الضحى، ج:٢، ص:٢٦٦، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

المعجم الأوسط للطبرانی میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إن في ‌الجنة بابا يقال له: الضحى، فإذا كان يوم القيامة نادى مناد: أين الذين كانوا يديمون على ‌صلاة ‌الضحى؟ هذا بابكم فادخلوه برحمة الله."

(باب الميم، من اسمه: محمد، ج:٥، ص:١٩٥، ط:دار الحرمين القاهرة)

وفیہ ایضاً:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يحافظ على صلاة ‌الضحى إلا ‌أواب."

(باب الميم، من اسمه علي،  ج:4، ص:159، ط:دار الحرمين القاهرة)

فتاوی شامی میں ہے:

 "وفي المنية: أقلها ركعتان وأكثرها اثني عشر، وأوسطها ثمان وهو أفضلها، كما في الذخائر الأشرفية؛ لثبوته بفعله وقوله عليه الصلاة والسلام".

(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ج:٢، ص:٢٣، ط:دار الفكر بيروت)

سورج نکلنے کے کم از کم دس منٹ بعد سے، استواءِ شمس  (زوال سے پہلے) تک اشراق کی نماز کا وقت ہے، البتہ یہ نمازاول وقت میں پڑھنا افضل ہے، اور احتیاطًا سورج طلوع ہونے کے پندرہ بیس منٹ بعد پڑھی جائے، تو زیادہ بہتر ہے،  اور چاشت کا وقت بھی  یہی  ہے، البتہ اس کا افضل وقت، اگر سورج طلوع ہونے سے لے کر زوال تک کے مجموعہ وقت کے ایک چوتھائی گذر نے کے بعد ہے، مثلاًسورج نکلنے اور زوال کے درمیان کا وقت چھ  گھنٹے  ہو، تو سورج طلوع ہونے کے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد سے، زوال سے پہلے تک ،جس وقت بھی چاشت پڑھے، یہ افضل ہوگا۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ اشراق اور چاشت پڑھنے کا افضل وقت  اگرچہ مختلف ہے، لیکن دونوں نمازوں کے شروع ہونے اور ختم ہونے کا وقت ایک ہی ہے، اسی لیے اشراق اور چاشت کی نماز ایک ہی وقت میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’(و) ندب (أربع فصاعدًا في الضحى) على الصحيح من بعد الطلوع إلى الزوال ووقتها المختار بعد ربع النهار."

(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ج:٢، ص:٢٢، ط:دار الفكر بيروت)

سنن ابن ماجه میں ہے:

"عن عاصم بن ضمرة السلولي، قال: سألنا عليًّا، عن تطوع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالنهار فقال: إنكم لاتطيقونه، فقلنا: أخبرنا به نأخذ منه ما استطعنا، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى الفجر يمهل، حتى إذا كانت الشمس من هاهنا - يعني من قبل المشرق - بمقدارها من صلاة العصر من هاهنا - يعني من قبل المغرب - قام فصلى ركعتين، ثم يمهل حتى إذا كانت الشمس من هاهنا، - يعني من قبل المشرق - مقدارها من صلاة الظهر من هاهنا قام فصلى أربعًا."

 (كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء فيما يستحب من التطوع بالنهار، ج:1ص:367، ط:دار إحياء الكتب العربية)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

’’ باب صلاة الضحى: قال الطيبي: المراد وقت الضحى، وهو صدر النهار حين ترتفع الشمس وتلقي شعاعها اهـ. قيل: التقدير صلاة وقت الضحى، والظاهر أن إضافة الصلاة إلى الضحى بمعنى "في" كصلاة الليل وصلاة النهار، فلا حاجة إلى القول بحذف المضاف، وقيل: من باب إضافة المسبب إلى السبب كصلاة الظهر، وقال ميرك: الضحوة بفتح المعجمة وسكون المهملة ارتفاع النهار، والضحى بالضم والقصر شروقه، وبه سمي صلاة الضحى، والضحاء بالفتح والمد هو إذا علت الشمس إلى زيغ الشمس فما بعده، وقيل: وقت الضحى عند مضي ربع اليوم إلى قبيل الزوال، وقيل: هذا وقته المتعارف، وأما وقته فوقت صلاة الإشراق، وقيل: الإشراق أول الضحى.‘‘

 (كتاب الصلاة، باب صلاة الضحى،الفصل الأول،  ج:3، ص: 977، ط:دار الفكر بيروت)

اوابین کی نمازکی   چھ رکعت ہیں، اس کا وقت مغرب کی فرض اورسنت نمازکے بعدہے، حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا، جو مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھے اور درمیان میں کوئی (دنیاوی) گفتگونہ کرے، تو اسےبارہ سال کی عبادت کے برابر ثواب ملے گا۔

سنن الترمذی میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى بعد المغرب ست ركعات لم يتكلم فيما بينهن بسوء عدلن له بعبادة ثنتي عشرة سنةً". 

 (أبواب الصلاة، باب ما جاء في فضل التطوع وست ركعات بعد المغرب، ج:٢، ص:٢٩٨، ط:الحلبي)

 الاختيار لتعليل المختارمیں ہے:

"وقد ورد في القيام ‌بعد ‌المغرب فضل كثير، وقيل هي ناشئة الليل وتسمى صلاة الأوابين."

(كتاب الصلاة، باب النوافل، ج:١، ص:٦٦، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں