بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اشکال (گائے میں عقیقہ ثابت نہیں) کا جواب


سوال

مجھے بیٹی کا عقیقہ کرنا ہے، میں گائے لے کر آیا ہوں،  میرے رشتہ دار  اہلِ حدیث ہیں،  وہ کہہ  رہے  ہیں: نہیں ہوتا؛ کیوں کہ  یہ کہیں  سے ثابت نہیں ہے۔ صرف بکرا اور بکری ثابت ہے،  گائے  کہیں سے ثابت نہیں ہے؟

جواب

سات   شرکاء  مل  کر  کسی بڑے جانور مثلًا گائے، بھینس یا اونٹ میں اپنے بچوں کا عقیقہ کرسکتے ہیں، ایسا کرنا جائز ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں:

"جمہور کامسلک یہ ہے کہ عقیقہ میں اونٹ اور گائے بھی کافی ہوگی، اس سلسلے میں طبرانی  کی روایت بھی ہے۔  امام احمد رحمہ اللہ نے ایک بچے کی جانب سے کامل جانور ذبح کرنے کی شرط لگائی ہے، لیکن امام رافعی رحمہ اللہ نے تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ قربانی کی طرح عقیقہ بھی ساتویں حصہ کے ذریعہ  ادا ہوجائے گا۔"

معجمِ صغیر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:  رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"  جس شخص کا لڑکا پیدا ہو وہ اونٹ، گائے یا بکری کے ذریعہ عقیقہ کرے۔"

کتبِ حدیث میں گائے، اونٹ وغیرہ میں سات آدمیوں کے شریک ہوکر قربانی کرنے کے جواز پر کئی حدیثیں ہیں، قربانی پر قیاس کرتے ہوئے عقیقے میں بھی گائے یا اونٹ وغیرہ میں سات حصے کرنا جائز ہے۔

صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

"ہم نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ حج کیا تو ہم نے اونٹ اور گائے سات سات لوگوں کی جانب سے ذبح کیے۔"

سنن ابی داؤد میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 

"گائے سات اشخاص کی جانب سے ہو سکتی ہے، اور اونٹ بھی سات آدمیوں کی جانب سے ہوسکتا ہے۔"

فتح الباري (9 / 593):

"والجمهور على إجزاء الإبل والبقر أيضاً، وفيه حديث عند الطبراني وأبي الشيخ عن أنس رفعه: يعق عنه من الإبل والبقر والغنم. ونص أحمد على اشتراط كاملة. وذكر الرافعي بحثاً أنها تتأدى بالسبع، كما في الأضحية، والله أعلم".

المعجم الصغير (1 / 150):

" عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ولد له غلام فليعق عنه من الإبل أو البقر أو الغنم. لم يروه عن حريث إلا مسعدة، تفرد به عبد الملك بن معروف".

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (4 / 70):

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"من ولد له غلام فليعق عنه من الإبل أو البقر أو الغنم".  رواه الطبراني في الصغير، وفيه مسعدة بن اليسع وهو كذاب".

صحيح مسلم (4 / 88):

"عن جابر بن عبد الله قال: حججنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فنحرنا البعير عن سبعة والبقرة عن سبعة".

سنن أبي داود (3 / 56):

"عن عطاء عن جابر بن عبد الله أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: « البقرة عن سبعة والجزور عن سبعة»".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين  (6 / 326):

"[تنبيه] قد علم أن الشرط قصد القربة من الكل، وشمل ما لو كان أحدهم مريدا للأضحية عن عامه وأصحابه عن الماضي تجوز الأضحية عنه ونية أصحابه باطلة وصاروا متطوعين، وعليهم التصدق بلحمها وعلى الواحد أيضاً؛ لأن نصيبه شائع، كما في الخانية، وظاهره عدم جواز الأكل منها، تأمل. وشمل ما لو كانت القربة واجبةً على الكل أو البعض اتفقت جهاتها أو لا، كأضحية وإحصار وجزاء صيد وحلق ومتعة وقران خلافاً لزفر؛ لأن المقصود من الكل القربة، وكذا لو أراد بعضهم العقيقة عن ولد قد ولد له من قبل؛ لأن ذلك جهة التقرب بالشكر على نعمة الولد ذكره محمد".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200121

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں