بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عیشال فاطمہ کا اردو معنی کیا ہے؟


سوال

عیشال فاطمہ کا اردو معنی کیا ہے؟

جواب

"عیشال"  کے معانی ہمیں کسی مستند لغت میں نہیں مل سکے۔

اور اگر یہ لفظ  «عِشال» "عین" کے نیچے زیر کے ساتھ  ہو تو عربی لغت میں استعمال نہیں ہوتا۔ البتہ «عَشّال» ( "عین" پر زبر اور "ش" پر تشدید کے ساتھ)  اور «عاشِل» کا معنی ہے: " درست اندازه  لگانے والا"۔

(لسان العرب، ‌‌حرف اللام،‌‌فصل العين المهملة، ج: 11، ص:448، ط:دار صادر)

یہ  («عَشّال» اور «عاشِل»)مرد  کی صفت ہے، لڑکی کے لیے استعمال کیا جائے تو  «عاشله» استعمال ہوگا۔ بچی کا نام "عاشلہ" رکھا جاسکتاہے، تاہم بہتر ہے کہ صحابیات رضی اللہ عنہن کے اسماء میں سے کسی کے نام پر بچی کا نام رکھ دیں، اس میں برکت ہے۔لہذا بچی کا نام ’’عیشال‘‘  کے بجائے کسی صحابیہ رضی اللہ عنہا کے نام پر  یا كوئي  اچھے معنیٰ والا نام رکھ دیجیے، اسلامی نام  جامعہ  کی  ویب سائٹ پر موجود ہیں، ان سے انتخاب کرکے نام رکھ  لیجیے۔   

 ’’فاطمہ‘‘  فطم سے ہے جس کے معنی  دودھ  چھڑانے کے ہیں، لغوی اعتبار سے ’’فاطمہ‘‘ اس خاتون کو کہتے ہیں جو اپنے بچے کا دودھ چھڑادے، ’’فاطمہ‘‘ رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر اور پیاری بیٹی (فاطمہ بنت محمد ﷺ) کا بابرکت نام ہونے کے ساتھ ساتھ بیس (۲۰) سے زیادہ صحابیات کا بھی نام مبارک ہے، اس لیے اس نسبت سے یہ نام  رکھنا مبارك اور بڑی سعادت کی بات ہے۔

تاج العروس میں ہے:

’’(و) فطم (الصبي) يفطمه فطما: (فصله عن الرضاع ۔۔۔۔۔۔۔ (والاسم) الفطام، (ككتاب) ، وفي الصحاح: فطام الصبي: فصاله عن أمه. يقال: فطمت الأم ولدها، وهو نص اللحياني في نوادره. [وناقة فاطم: بلغ حوارها ستة أشهر] .

(وأفطم السخلة) كذا في النسخ، والصواب: أفطمت: إذا (حان أن تفطم) عن ابن الأعرابي، (فإذا فطمت فهي فاطم ومفطومة وفطيم) ، وذلك لشهرين من [يوم] ولادها، فلا يزال عليها اسم الفطام حتى تستجفر.

(وفاطمة عشرون صحابية) بل أربعة وعشرون، وهن:فاطمة بنت رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم سيدة نساء العالمين، وابنة أسد بن هاشم الهاشمية أم علي وإخوته رضي الله تعالى عنهم، وبنت الحارث بن خالد التيمية، وابنة أبي الأسود المخزومية، وابنة أبي حبيش الأسدية، وابنة حمزة بن عبد المطلب، وابنة سودة الجهنية، وابنة شرحبيل، وابنة شبية العبشمية، وابنة صفوان الكنانية، وابنة الضحاك الكلابية، وابنة أبي طالب أم هانئ في قول، وابنة عبد الله، وابنة عتبة، وابنة خطاب العدوية، وفاطمة الخزاعية، وابنة علقمة العامرية، وابنة عمرو بن حزام، وابنة المجلل العامرية، وابنة منقذ الأنصارية، وابنة الوليد بن عتبة، وابنة اليمان رضي الله تعالى عنهن.‘‘

‌‌(فصل الفاء مع الميم، ‌‌ف ط م، ج: 33، ص: 209، ط: دار إحياء التراث)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100615

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں