بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عشاء پڑھانے والے کے علاوہ دوسرے شخص کا وتر پڑھانے کا حکم


سوال

جس امام نے رمضان میں عشاء کی جماعت کروائی ہو تو  کیا وتر کی جماعت بھی وہی کرواۓ گا ،اگر کوئی دوسرا جماعت کرواۓ تو کوئی حرج تو نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جو شخص کسی  مسجد کامستقل امام ہو  تو مسجد میں ہر طرح کی جماعت کرانے کا حق اسی کو حاصل ہے، اس کی اجازت کے بغیر کسی اور کو جماعت کرانے کا حق حاصل نہیں ہے ہاں اگر وہ اجازت دے دے تو دوسرا آدمی جماعت کراسکتاہے ،اسی طرح اگر امام نے عشاء کی نماز پڑھائی ہو تو وتر پڑھانے کاحق بھی اسی کو حاصل ہے لیکن اگر وہ اجازت دے تو دوسرےآدمی کا وتر کی جماعت کرانابلا کراہت جائز ہے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"دخل المسجد من هو أولى بالإمامة من إمام المحلة فإمام المحلة أولى. كذا في القنية."

(ص:83،ج:1،كتاب الصلوة،الفصل الثاني من الباب الخامس في بيان من هو أحق بالإمامة،ط:دار الفکر،بیروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"واعلم أن صاحب البيت ومثله إمام المسجد ‌الراتب أولى بالإمامة من غيره مطلقا إلا أن يكون معه سلطان أو قاض فيقدم عليه لعموم ولايتهما...(قوله: مطلقا أي وإن كان غيره من الحاضرين من هو أعلم وأقرأ منه)."

(ص:559،ج:1،كتاب الصلوة،باب الإمامة،ط:سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"أما لو صلاها جماعة مع ‌غيره ثم صلى الوتر معه لا كراهة تأمل."

(ص:48،ج:2،كتاب الصلوة،باب الوتر والنوافل،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں