بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عشاء کی نماز وقت سے پہلے پڑھنے کا حکم


سوال

حضرت، میں جرمنی میں ایک طالب علم ہوں اور ایک خاص مسئلہ کے لیے کچھ رہنمائی چاہتاہوں۔ مسئلہ کچھ یوں ہے کہ یورپ کے اکثر ممالک میں اور جرمنی میں خاص طورپر گرمی میں رات بہت زیادہ چھوٹی ہوجاتی ہے ، عام طورپر عشاء کا وقت گیارہ /ساڑھے گیاہ بجے شروع ہوتاہے اور فجر کا وقت دو یا ڈھائی بجے سے شروع ہوتاہے ، ایسے میں عشاء اورفجر کی نماز وں کی ترتیب کچھ خراب ہوجاتی ہے، اگر آپ کام سے واپس آئیں یا صبح کام پہ جانا ہو تو ایک نماز قربان کرنا پڑتی ہے، یہاں پہ ایک اسلامی سینٹر کا فتوی موجود ہے کہ نماز وقت سے کچھ پہلے ادا کی جاسکتی ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگ عشاء وقت سے کچھ پہلے اور فجر آخری وقت میں ادا کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا نماز وقت سے پہلے ادا ہوسکتی ہے؟ اگر ہوسکتی ہے تو اس وقت کو کیسے جانا جاسکتاہے؟ کیا صرف اندھیرے کا پھیل جانا اور غالب آجانا نماز عشاء کے لیے کافی ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی نماز کا وقت داخل ہونے سے پہلے اس نماز کا پڑھنا درست نہیں ہے، اور اگر پڑھ لی جائے تو درست نہ ہوگی، بلکہ وقت داخل ہونے پر دوبارہ پڑھی جائے گی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب تک عشاء کا وقت داخل نہ ہوجائے، اس وقت تک عشاء کی نماز نہ پڑھی جائے، بلکہ وقت داخل ہونے پر ہی پڑھی جائے۔

عشاء کی نماز کے وقت کا تعین یہ ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد آسمان پر جو سرخی ہوتی ہے اس کے ختم ہونے کے بعد سے عشاء کی نماز کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور صبح صادق سے پہلے تک رہتا ہے، البتہ عشاء کی نماز ادا کرنے میں آدھی رات تک تاخیر کرنا مکروہ ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:

"(الشفق وهو الحمرة) عندهما، وبه قالت الثلاثة وإليه رجع الإمام كما في شروح المجمع وغيرها، فكان هو المذهب.

(و) وقت (العشاء والوتر منه إلى الصبح)."

(كتاب الصلاة، ج: 1، ص: 362، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100120

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں