بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عشاء کی نماز میں فجر کی نیت سے دو رکعت پر سلام پھیرنے کا حکم


سوال

 اگر عشاء کی نماز امام بھول کر فجر کی نیت کر کے دو رکعت کے بعد دونوں سلام پھیر دیا پھر مقتدی نے لقمہ دیا،  پھر انہوں نے کھڑے ہو کر فجر کی نیت سے دو رکعت کے بعد  دونوں طرف سلام پھیر دیا، اب کیا کرنا چاہیے؟ سابقہ نماز کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

اگر آپ کے سوال کا مطلب یہ ہے کہ امام صاحب نے عشاء کی نماز پڑھتے ہوئے ابتدا ہی سے فجر کی نماز کی نیت کی تھی تو اس صورت میں امام صاحب کی نماز شروع سے ہی درست نہیں ہوئی اور امام صاحب کی نماز نہ ہونے کی وجہ سے مقتدیوں کی نماز بھی نہیں ہوئی، اس  لیے امام صاحب اور تمام مقتدیوں پر لازم ہے کہ عشاء کی اس نماز کو دوبارہ لوٹائیں، اگر عشاء کے وقت کے اندر لوٹالی تو یہ نماز ادا شمار ہوگی اور اگر عشاء کا وقت گزرنے کے بعد مسئلہ معلوم ہوا تو عشا کے وقت کے بعد نماز لوٹانے کی صورت میں یہ قضا نماز کہلائے گی۔

لیکن اگر آپ کے سوال کا مطلب یہ ہے کہ امام صاحب نے عشاء کی نماز شروع تو عشاء کی نماز کی نیت سے  کی، پھر بعد میں غلط فہمی سے اسے فجر کی نماز سمجھ کر دو رکعت پر سلام پھیر دیا تو اس صورت کا حکم یہ ہے کہ  اگر امام صاحب نے عشاء کی نماز پڑھاتے ہوئے غلطی سے بھول کر دوسری رکعت میں سلام پھیردیا اور کسی مقتدی نے بات کیے بغیر  "سبحان اللہ"  یا اس جیسا کوئی کلمہ  کہہ کر لقمہ دیا اور امام صاحب کو یاد آگیا کہ دو رکعت باقی ہیں؛ لہٰذا امام صاحب ایک یا دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد کوئی منافی صلاۃ کام (مثلاً: بات چیت، یا سینہ قبلے کی طرف سے پھیرے)  کیے بغیر  فورًا تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو گئے اور تیسری و چوتھی رکعت پڑھاکر آخر میں سجدہ سہو کرلیا تو نماز ہوجائے گی۔  از سر نو نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔  بھولے سے سلام پھیرنے کے بعد  نماز کے منافی کام کیے بغیر، اٹھ کر بقیہ نماز مکمل کرکے آخر میں سجدہ سہو کرنے سے بھی نماز ہوجاتی ہے۔

لیکن اگر امام صاحب نے سلام پھیرنے کے بعد کوئی منافی صلاۃ کام کرلیا، مثلاً قبلہ کی طرف سے سینہ پھیرلیا یا مقتدیوں سے بات چیت کے ذریعہ معلوم ہوا کہ دو رکعتیں پڑھائی گئی ہیں تو اس صورت میں وہ نماز فاسد ہوجائے گی اور اس نماز کو از سر نو پڑھنا لازم ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 414):

’’ (و) الخامس (النية) بالإجماع (وهي الإرادة) المرجحة لأحد المتساويين أي إرادة الصلاة لله تعالى على الخلوص (لا) مطلق (العلم) في الأصح، ألا ترى أن من علم الكفر لا يكفر، ولو نواه يكفر (والمعتبر فيها عمل القلب اللازم للإرادة) فلا عبرة للذكر باللسان إن خالف القلب لأنه كلام لا نية إلا إذا عجز عن إحضاره لهموم أصابته فيكفيه اللسان مجتبى (وهو) أي عمل القلب (أن يعلم) عند الإرادة (بداهة) بلا تأمل (أي صلاة يصلي) فلو لم يعلم إلا بتأمل لم يجز. ... (ولا بد من التعيين عند النية) فلو جهل الفرضية لم يجز؛ ولو علم ولم يميز الفرض من غيره، إن نوى الفرض في الكل جاز، وكذا لو أم غيره فيما لا سنة قبلها (لفرض) أنه ظهر أو عصر.‘‘

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 91):

"(سلم مصلي الظهر) مثلًا (على) رأس (الركعتين توهمًا) إتمامها (أتمها) أربعًا (وسجد للسهو) لأن السلام ساهيًا لايبطل لأنه دعاء من وجه.

(قوله: توهما) أي ذا توهم أو متوهما (قوله أتمها أربعا) إلا إذا سلم قائما في غير جنازة كما قدمه في مفسدات الصلاة؛ لأن القيام في غير الجنازة ليس مظنة للسلام فلايغتفر السهو فيه. (قوله: لأنه دعاء من وجه) أي فلذا خالف الكلام حيث كان مبطلًا ولو ساهيًا."

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 164):

"ولو سلم مصلي الظهر على رأس الركعتين على ظن أنه قد أتمها، ثم علم أنه صلى ركعتين، وهو على مكانه ، يتمها ويسجد للسهو أما الإتمام فلأنه سلام سهو فلا يخرجه عن الصلاة. وأما وجوب السجدة فلتأخير الفرض وهو القيام إلى الشفع الثاني".

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144211201336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں