بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عشاء کی فرض نماز کے فوراً بعد آیت کریمہ کا اجتماعی ورد کرنا


سوال

عشاء کی فرض نماز کے بعد کچھ لوگوں کے اصرار پر ہمارے پورے شہر کے اہل مساجد نے آیت کریمہ کا دور شروع کروا دیا ہے۔ جس کی شکل یہ ہے کہ فرض کا سلام پھیرتے ہی کچھ لوگ صفوں کے درمیان ڈبوں میں سے اِملی کے بیج بچھا دیتے ہیں اور پھر امام و مقتدی سب ہی عمل میں شریک ہو جاتے ہیں،  فرض کے بعد کے معمولات یا دعاء کا بھی موقع نہیں دیا جاتا،  یہ عمل تقریباً پانچ سات منٹ چلتا ہے اس کے بعد اجتماعی دعاء ہوتی ہے،  اس طرح فرض کے بعد مزید دس منٹ لگتے ہیں اور پھر سنتوں کے لیے موقع ملتا ہے۔ کیا یہ طرزعمل درست ہے ؟ یا کوئی اصلاح و ترمیم ضروری ہے ؟واضح رہے کہ یہ عمل کب تک جاری رہے گا کسی کو پتہ نہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں عشاء کی فرض نماز کے سلام پھیرنے کے فوراً بعد   مساجد میں اجتماعی طور پر  مذکورہ طریقہ پر ”آیتِ کریمہ“  کا ورد کرنا  حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ  علیہم اجمعین، تابعین اور تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں ہے، لہذا اس کو ترک کیا جائے اور اگر اجتماعی طور پر آیت کریمہ کا ورد کرنا ہو تو کسی کمرے یا خانقاہ میں چلے جائیں وہاں یہ عمل جاری رکھیں۔

فتاوی شامی میں ہے :

"ورفع صوت بذكر إلا للمتفقهة .

(قوله: ورفع صوت بذكر إلخ) أقول: اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك؛ فتارة قال: إنه حرام، وتارة قال إنه جائز. وفي الفتاوى الخيرية من الكراهية والاستحسان: جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحو " «وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم» رواه الشيخان. وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار، والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص والأحوال كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر والإخفاء بالقراءة ولا يعارض ذلك حديث «خير الذكر الخفي» لأنه حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام، فإن خلا مما ذكر؛ فقال بعض أهل العلم: إن الجهر أفضل لأنه أكثر عملا ولتعدي فائدته إلى السامعين، ويوقظ قلب الذاكر فيجمع همه إلى الفكر، ويصرف سمعه إليه، ويطرد النوم، ويزيد النشاط. اهـ. ملخصا، وتمام الكلام هناك فراجعه. وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفا وخلفا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ إلخ."

(1/ 660،  كتاب الصلاة، فروع افضل المساجد، ط: سعيد)

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

"ومنها: (ای من البدع)  التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته".

(الاعتصام للشاطبي (ص: 53) الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها وما اشتق منه لفظا، ط: دار ابن عفان، السعودية)

مرقاة المفاتیح  میں ہے:

"قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال ، فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟."

(3/31،  کتاب الصلاة،  الفصل الأول، ط: رشیدیة) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311101627

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں