بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عشاء کی دورکعت سنت کے بعد وتر سے پہلے دورکعت نفل بیٹھ کر پڑھنا


سوال

 عشاء کی  دو رکعت سنت اور وتر کے درمیان جو دو رکعت نفل منقول ہے اس کو بیٹھ کر پڑھنا چاہیۓ یا کھڑے ہوکر؟

جواب

عشاء کی فرض نماز کے بعد وتر سے پہلے دورکعت نماز پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے، جسے کھڑے ہوکر پڑھنا چاہیے، ان دو رکعت سنتِ مؤکدہ کے بعد وتر سے پہلے دو رکعت پڑھنے کا بعض روایات میں ذکر ہے، یہ دو رکعت بھی کھڑے ہوکر پڑھنا افضل ہے، البتہ انہیں بیٹھ کر بھی پڑھ سکتے ہیں، تاہم صحت مند آدمی کے لیے نوافل بیٹھ کر پڑھنے کی صورت میں کھڑے ہوکر پڑھنے کے مقابلے میں آدھا ثواب ملتاہے۔

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے وتر کے بعد  کی دو رکعت نفل بیٹھ کر پڑھنا ثابت ہے؛ اس لیے یہ سوال ہوتاہے کہ امتی کے لیے یہ نفل کھڑے ہوکر پڑھنا افضل ہے یا بیٹھ کر؟ اس کا جواب یہ ہے کہ  علماء نے اسے بھی کھڑے ہو کر پڑھنا افضل قرار دیا ہے،  اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے کہ بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کو کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کے مقابلے میں آدھا اجر ملتاہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی تھی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو بیٹھ کر نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے تو فرمایا ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنا کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کے مقابلے میں نصف اجر رکھتاہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بیٹھ کر نماز ادا فرمارہے ہیں، (جب کہ آپ تو عبادت اور ثواب کی بہت زیادہ رغبت رکھتے ہیں)؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم میں سے عام آدمی کی طرح نہیں ہوں۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنے میں بھی پورا اجر ہے۔

تاہم اگر کوئی اتباع سنت نبوی میں دورکعت بیٹھ کر پڑھتاہے نفل تو ادا ہوجائیں گے ،لیکن اجر نصف ملے گا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويتنفل مع قدرته على القيام قاعدًا) لا مضطجعًا إلا بعذر (ابتداء و) كذا (بناء) بناء الشروع بلا كراهة في الأصح كعكسه، بحر، وفيه أجر غير النبي صلى الله عليه وسلم على النصف إلا بعذر. 

"(قوله:أجر غير النبي) أما النبي فيه خصائصه أن نافلته قاعدًا مع القدرة على القيام كنافلته قائمًا ففي صحيح مسلم عن عبد الله بن عمرو قلت: حدثت يا رسول الله أنك قلت: صلاة الرجل قاعدًا على نصف الصلاة وأنت تصلي قاعدًا؟ قال: أجل ولكني لست كأحد منكم، بحر ملخصًّا، أي لأنه تشريع لبيان الجواز وهو واجب عليه، (قوله: على النصف إلا بعذر) أما مع العذر فلاينقص ثواب عن ثوابه قائمًا، لحديث البخاري في الجهاد: إذا مرض العبد أو سافر كتب له مثل ما كان يعمل مقيمًا صحيحًا، فتح، وحكى في النهاية الإجماع عليه وتعقبه في البحر بحكاية النووي عن بعضهم أنه على النصف مع العذر أيضًا، ثم نقل عن المجتبى أن إيماء العاجز أفضل من صلاة القائم لأنه جهد المقل، قال: ولايخفى ما فيه بل الظاهر المساواة كما في النهاية ،لكن ذكر القهستاني مافي المجتبى ثم قال: لكن في الكشف أنه قال الشيخ أبو معين النسفي: جميع عبادات أصحاب الأعذار كالمومي وغيره تقوم مقام العبادات الكاملة في حق إزالة المأثم لا في حق إحراز الفضيلة ا هـ  أقول: وهو موافق لقول البعض المار ويؤيده حديث البخاري من صلى قائمًا فهو أفضل، ومن صلى قاعدًا فله نصف أجر القائم، ومن صلى نائمًا فله نصف أجر القاعد، فإن عموم من يدخل فيه العاجز ولأن الصلاة نائمًا لاتصح عندنا بلا عذر، وقد جعل له نصف أجر القاعد، وفي هذا المقام زيادة كلام يطلب ما علقناه على البحر".

(كتاب الصلوة ،باب الوتر و النوافل ،ج: 2، ص: 36 + 37، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408100361

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں