بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عشاء کی دو رکعت سنت میں تہجد کی نیت کرنے کا حکم


سوال

کیا عشاء کی دو  رکعت سنت میں تہجد کی نیت کرنا صحیح ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ عشاء کی سنت اور تہجد دونوں مستقل عبادتیں ہیں ،اور ہر ایک کے لیے  مستقل وقت اور ثواب  ہے ،اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دونوں کو مستقل ادا کیا ہے،اس لیے عشاء کی سنتوں کو الگ اور تہجد کی نماز کو الگ ادا کرنا چاہیے ۔

تہجد کی نماز کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق تک ہے ۔حضرت عائشہ رضی  اللہ عنہا سے صحاح میں  روایت موجود ہے کہ حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے  تہجد ابتدائی شب میں  بھی ،نصف شب میں  بھی اور آخری شب میں  بھی پڑھی ہے مگر آخر زندگی میں  زیادہ تر آخری شب میں  پڑھنا ہوتا تھا ، رات کا حصہ جتنا بھی مؤخر ہوتا جاتا ہے اتنی ہی رحمتیں  اور برکتیں  زیادہ ہوتی ہیں  اور سدس آخر (رات کا آخری چھٹا حصہ) تمام حصوں  سے زیادہ افضل ہوتا ہے ۔

  اس لیے رات کے آخری پہر میں ہی تہجد پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے، چوں کہ یہ مشقت سے خالی نہیں ہے،اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ نےفرمایا  رات کو بیدار ہونا  مشکل اور گراں ہے،اس لیے جب تم میں سے کوئی شخص وتر پڑھ لے تو اسے چاہیے کہ دو رکعتیں پڑھ لے ،اگر وہ رات کو اٹھ گیا اور تہجد ادا کر لی تو  اچھی بات ہے ،وگرنہ پھر یہ دو رکعتیں قیام اللیل کی طرف سے کافی ہوگیں۔لیکن  اس کا مطلب یہ سمجھنا  کہ رات کو اٹھ کر پڑھنے والا اور یہ شخص اجر میں برابر ہو گئے درست نہیں ہے،بلکہ بہر صورت جو رات کوبیدار ہو کر  ،نیند قربان کرکے اللہ کی عبادت کرے گا وہی افضل ہے۔

 اگر نہ اٹھنے کا اندیشہ ہو تو عشاء کی سنتوں اور وتر کے درمیان  دو رکعت تہجد کی نیت سے پڑھ لینا بھی قائم مقام تہجد کے ہے،اور اگر کوئی دو رکعت سنت میں ہی تہجد کی نیت کر لے تو یہی  دو رکعت   عشاء کی سنت اور تہجد  کے لیے بھی کافی ہو جائے گی،لیکن بہر صورت  تہجد کو مستقل اور آخری شب میں ادا کرنے کی ہی کوشش کرنی چاہیے , یہی افضل صورت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وصلاة الليل) أقول: هي أفضل من صلاة النهار كما في الجوهرة ونور الإيضاح، وقد صرحت الآيات والأحاديث بفضلها والحث عليها. قال في البحر: فمنها ما في صحيح مسلم مرفوعا «أفضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل» وروى الطبراني مرفوعا «لا بد من صلاة الليل ولو حلب شاة، وما كان بعد صلاة العشاء فهو من الليل» وهذا يفيد أن هذه السنة تحصل بالتنفل بعد صلاة العشاء قبل النوم. اهـ.

قلت: قد صرح بذلك في الحلية، ثم قال فيها بعد كلام: ثم غير خاف أن صلاة الليل المحثوث عليها هي التهجد. وقد ذكر القاضي حسين من الشافعية أنه في الاصطلاح التطوع بعد النوم، وأيد بما في معجم الطبراني من حديث الحجاج بن عمرو - رضي الله عنه - قال «يحسب أحدكم إذا قام من الليل يصلي حتى يصبح أنه قد تهجد، إنما التهجد المرء يصلي الصلاة بعد رقدة» غير أن في سنده ابن لهيعة وفيه مقال، لكن الظاهر رجحان حديث الطبراني الأول لأنه تشريع قولي من الشارع - صلى الله عليه وسلم - بخلاف هذا، وبه ينتفي ما عن أحمد من قوله قيام الليل من المغرب إلى طلوع الفجر اهـ ملخصا.

أقول: الظاهر أن حديث الطبراني الأول بيان لكون وقته بعد صلاة العشاء، حتى لو نام ثم تطوع قبلها لا يحصل السنة، فيكون حديث الطبراني الثاني مفسرا للأول، وهو أولى من إثبات التعارض والترجيح لأن فيه ترك العمل بأحدهما ولأنه يكون جاريا على الاصطلاح ولأنه المفهوم من إطلاق الآيات والأحاديث ولأن التهجد إزالة النوم بتكلف مثل: تأثم أي تحفظ عن الإثم؛ نعم صلاة الليل وقيام الليل أعم من التهجد، وبه يجاب عما أورد على قول الإمام أحمد هذا ما ظهر لي، والله أعلم.

(کتاب الصلوۃ ،باب الوتر و النوافل،ج:2،ص:24،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

" ولو نافلتين كسنة فجر وتحية مسجد فعنهما،(قوله ولو نافلتين) قد تطلق النافلة على ما يشمل السنة وهو المراد هنا (قوله فعنهما) ذكره في الأشباه ثم قال: ولم أر حكم ما إذا نوى سنتين كما إذا نوى في يوم الاثنين صومه عنه وعن يوم عرفة إذا وافقه فإن مسألة التحية إنما كانت ضمنا للسنة لحصول المقصود اهـ أي فكذا الصوم عن اليومين وأيده العلامة البيري بأنه يجزيه الصوم في الواجبين، ففي غيرهما أولى لما في خزانة الأكمل: لو قال لله علي أن أصوم رجبا ثم صام عن كفارة ظهار شهرين متتابعين أحدهما رجب أجزأه، بخلاف ما لو كان أحدهما رمضان، ولو نذر صوم جميع عمره ثم وجب صوم شهرين عن ظهار أو أوجب صوم شهر بعينه ثم قضى فيه صوم رمضان جاز من غير أن يلحقه شيء اهـ لكن ليس في هذا جمع بين نيتين بل هو نية واحدة أجزأت عن صومين، ولم يذكر الشارح هذه المسألة لأن كلامه في الصلاة ولا تتأتى فيها. ويمكن تصويره فيما لو نوى سنة العشاء والتهجد بناء على ما رجحه ابن الهمام من أن التهجد في حقنا سنة لا مستحب۔"

(کتاب الصلاۃ ،باب صفۃ الصلاۃ،ج:1،ص:440،ط:سعید)

مسند دارمی میں ہے:

"أخبرنا مروان، عن عبد الله بن وهب، عن معاوية بن صالح، عن شريح بن عبيد، عن عبد الرحمن بن جبير، بن نفير عن أبيه، عن ثوبان - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: إن ‌هذا ‌السهر ‌جهد ‌وثقل، ‌فإذا ‌أوتر ‌أحدكم ‌فليركع ‌ركعتين، ‌فإن ‌قام ‌من ‌الليل وإلا كانتا له"

(کتاب الصلاۃ، باب فی الرکعتین بعد الوتر،ج:2،ص:993،ط:دار المغنی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن ثوبان رضي الله عنه، «عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن هذا السهر جهد وثقل، فإذا أوتر أحدكم فليركع ركعتين، فإن قام من الليل، ‌وإلا ‌كانتا ‌له» ". رواه الدارمي. (فإن قام من الليل) : وصلى فيه فبها، أي أتى بالخصلة الحميدة، ويكون نورا على نور. (وإلا) ، أي: وإن لم يقم، أي من الليل لغلبة النوم له الناشئة عن سهره في طاعة ربه (كانتا) ، أي: الركعتان (له) ، أي: كافيتين له من قيام الليل."

(کتاب الصلاۃ ،باب الوتر،ج:3،ص:957،ط:دار الفکر)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

" تہجد کی نماز کا صحیح وقت کون سا ہے؟

(الجواب )تہجد کی نماز کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق تک ہے ۔حضرت عائشہ رضی  اللہ  عنہا سے صحاح میں  روایت موجود ہے کہ حضرت اقدسصلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تہجد ابتدائی شب میں  بھی ،نصف شب میں  بھی اور آخری شب میں  بھی پڑھی ہے مگر آخر زندگی میں  زیادہ تر آخری شب میں  پڑھنا ہوتا تھا ۔ رات کا حصہ جتنا بھی مؤخر ہوتا جاتا ہے اتنی ہی رحمتیں  اور برکتیں  زیادہ ہوتی ہیں  اور سدس آخر (رات کا آخری چھٹا حصہ) تمام حصوں  سے زیادہ افضل ہوتا ہے ۔

تہجد (لفظ) ترک ہجود یعنی ترک نوم سے مشتق ہے ۔ یعنی سونے کے اوقات! اور عشاء کے بعد تمام اوقات تہجد کے ہی اوقات ہیں ! (مکتوبات شیخ الا سلام نمبر ۷۷ ص ۲۰۲)

(کتاب الصلاۃ ،باب السنن والنوافل ،ج:5،ص:220،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100442

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں