بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عشاء کے بعد سونے کی تفصیل


سوال

کیا رات کو جلدی سونا سنت ہے؟

جواب

احادیثِ مبارکہ میں عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد  قصہ گوئی کی ممانعت اور جلدی سونے کی ترغیب وارد ہے،  البتہ دینی امور (تعلیم،عبادت وغیرہ) یا اہم دنیاوی امور (مثلاً مسلمانوں کے اجتماعی نظم کے حوالے سے مشورہ وغیرہ) عشاء کے بعد انجام دینا،اسی طرح گھر والوں کے ساتھ گفتگو کرنا، یا گھر پر آئے ہوئے مہمانوں کی ضیافت وغیرہ احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے؛ لہٰذا رات کو عشاء کی نماز پڑھ کر جلدی سونا مستحب ہے،  تاہم عشاء کی نماز کے بعد دینی یا دنیوی ضرورت کے لیے جاگنا جائز ہے، جب کہ لا یعنی اور فضول کاموں یا گفتگو میں لگنا مکروہ ہے، نیز کسی کام میں اس طرح  لگنا جس سے فجر کی نماز قضا ہونے کا غالب گمان ہو، ناجائز ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی اس تعلیم پر عمل کیا جائے تو ان شاء اللہ تعالیٰ تمام مسلمان فجر کی نماز کے پابند ہوجائیں گے، بلکہ بڑی تعداد تہجد گزار ہوجائے گی، اور صبح کے اوقات میں از روئے حدیث اللہ پاک نے برکت رکھی ہے، لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ رات کو جلدی سونے اور فجر کی نماز باجماعت کا اہتمام کریں، اور صبح صبح دکانیں، بازار کھولیں، اس بابرکت وقت کی تجارت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ زیادہ نفع اور برکت عطا فرمائیں گے۔ موجودہ دور میں عشاء کے بعد دیر تک دنیاوی مشغولیات کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے، جس کے دینی و دنیاوی مفاسد عیاں ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 368):
"وقال الزيلعي: وإنما كره الحديث بعده؛ لأنه ربما يؤدي إلى اللغو أو إلى تفويت الصبح أو قيام الليل لمن له عادة به، وإذا كان لحاجة مهمة فلا بأس، وكذا قراءة القرآن والذكر وحكايات الصالحين والفقه والحديث مع الضيف. اهـ. والمعنى فيه أن يكون اختتام الصحيفة بالعبادة، كما جعل ابتداؤها بها ليمحى ما بينهما من الزلات، ولذاكره الكلام قبل صلاة الفجر، وتمامه في الإمداد.
ويؤخذ من كلام الزيلعي أنه لو كان لحاجة لايكره وإن خشي فوت الصبح؛ لأنه ليس في النوم تفريط وإنما التفريط على من أخرج الصلاة عن وقتها كما في حديث مسلم، نعم لو غلب على ظنه تفويت الصبح لايحل؛ لأنه يكون تفريطًا، تأمل". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144108200279

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں