ترکی میں عوام مع خواص تقریباً سب اسبال ازار میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان سے جب پوچھا جاتا ہے کہ ’’آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟‘‘ تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’حدیث میں خیلاء کی قید ہے، لہذا اگر تکبر باعث نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘، میرا خاندان اب ترکی منتقل ہوگیا ہے، تو سوال یہ تھا کہ اپنے ماتحتوں کو اس بات پر نکیر کرنی چاہیے؟ یا کیا حنفی مذہب میں اس کی گنجائش ہے؟
ہم عامۃ یہی سنتے اور کہتے ہیں کہ اسبال مکروہِ تحریمی ہے اور بعض علماء یہ قاعدہ بھی بیان کرتے ہیں کہ چوں کہ نیت باطن کی چیز ہے اس وجہ سے ہمیں اس کی اطلاع نہیں ہے، لہذا ظاہر کا اعتبار ہوگا، تو اگر یہ بات صحیح ہو تو پھر یہ مکروہِ تحریمی ہوگا اور قابلِ نکیر ہے اور قابلِ اصلاح ہے، لیکن چوں کہ وہاں کے علماء بھی اس عمل میں مبتلا ہیں اور وہ بھی حنفی کتابیں وغیرہ پڑتھے ہیں، اس لیے میں نے پہلے یہ مناسب سمجھا کہ مفتیانِ کرام سے یہ معلوم کیا جائے کہ کیا حنفی میں مذہب میں یہی ایک رائے ہے جو قابل عمل ہے؟ یا ان کے کہنے کے مطابق خیلاء کی قید کو قید احترازی مانا جا سکتا ہے؟
واضح رہے کہ اسبالِ ازار سے متعلق جو احادیث وارد ہوئی ہیں، ان میں سے بعض میں خیلاء کی قید ہے اور بعض میں نہیں ہے، لہٰذا اس مسئلہ کی تفصیل یوں ہے:
۱۔ اگر کوئی شخص تکبر کی وجہ سے تہہ بند نیچے رکھتا ہے یا پائنچوں کو ٹخنوں سے نیچے لٹکایا کرتا ہے تو یہ بالاتفاق حرام ہے۔
۲۔ اگر کوئی شخص تکبر کی وجہ سے تہہ بند نہیں لٹکاتا، بلکہ غفلت اور عدمِ اہتمام کی وجہ سے ایسا ہوجاتا ہے تو یہ مکروہِ تحریمی ہے۔
۳۔ بغیر قصد و اختیار کے کسی وقت اگر تہہ بند از خود لٹک جائے تو اس میں بالاتفاق رخصت ہے۔
جن احادیث میں مطلقاً ممانعت آئی ہے، انہیں احادیث مقیدۃ بالخیلاء پر محمول کیا جائے گا، یعنی اگرچہ ان احادیث میں تکبر کی وجہ سے لٹکانے کی قید نہیں ہے، مطلقاً ممانعت ہے، تاہم یہ قید دوسری احادیث کی وجہ سے ملحوظ رہے گی، اس طرح جواز اور ممانعت کی روایات میں تطبیق ہوسکے گی کہ جن روایات میں ممانعت اور تحریم وارد ہے، ان سے تکبر کی وجہ سے لٹکانے والی صورت مراد ہے اور جن روایات میں اجازت دی گئی ہے، ان سے عدم تکبر اور بغیر قصد والی صورتیں مراد ہیں، تاکہ دونوں طرح کی روایات میں تطبیق ہوسکے۔
صحیح بخاری میں ہے:
"عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ما أسفل من الكعبين من الإزار ففي النار.»"
(كتاب اللباس، باب ما أسفل من الكعبين، ج: 7، ص: 141، ط: دار طوق النجاة)
مرقات المفاتیح میں اس حدیث کی تشریح یوں کی گئی ہے:
"(وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما أسفل) : بفتح اللام أي ما نزل (من الكعبين من الإزار) : بيان لما أي من إزار الرجل (في النار) : أي فهو أي صاحبه في نار جهنم بسبب الإسبال الناشئ عن التكبر والاختيال... (ففي النار) قال الخطابي: يتناول هذا على وجهين، أحدهما: أن ما دون الكعبين من قدم صاحبه في النار عقوبة له على فعله، والآخر: أن فعله ذلك في النار أي هو معدود ومحسوب من أفعال أهل النار، قال النووي: الإسبال يكون في الإزار والقميص والعمامة، ولا يجوز الإسبال تحت الكعبين إن كان للخيلاء، وقد نص الشافعي على أن التحريم مخصوص بالخيلاء لدلالة ظواهر الأحاديث عليها، فإن كان للخيلاء فهو ممنوع منع تحريم، وإلا فمنع تنزيه، وأجمعوا على جواز الإسبال للنساء، وقد صح عن النبي صلى الله عليه وسلم: " لهن في إرخاء ذيولهن "، وأما القدر المستحب فيما ينزل إليه طرف القميص والإزار فنصف الساقين، والجائز بلا كراهة ما تحته إلى الكعبين، وبالجملة يكره ما زاد على الحاجة، والمعتاد في اللباس من الطول والسعة اهـ، والظاهر أن المعتبر هو المعتاد الشرعي لا المعتاد العرفي. فقد روى ابن ماجه بسند حسن، عن ابن عباس: أنه صلى الله عليه وسلم كان يلبس قميصا قصير الكمين والطول، وفي رواية ابن عساكر عنه: «كان يلبس قميصا فوق الكعبين مستوي الكمين بأطراف أصابعه» ."
(كتاب اللباس، ج: 7، ص: 2767، ط: دار الفكر بيروت)
سنن ابی داؤد میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إزرة المسلم إلى نصف الساق، ولا حرج أو لا جناح فيما بينه وبين الكعبين، ما كان أسفل من الكعبين فهو في النار، من جر إزاره بطرا لم ينظر الله إليه."
(كتاب اللباس، باب في قدر موضع الإزار، ج: 4، ص: 103، ط: المطبعة الأنصارية بدهلي)
ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہےکہ مسلمان کی ازار آدھی پنڈلی تک ہے، آدھی پنڈلی سے ٹخنوں تک میں کوئی حرج نہیں اور ٹخنوں سے نیچے ہو وہ آگ میں ہے، جس نے تکبر سے اپنی ازار لٹکائی اللہ تعالیٰ اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔‘‘ (الدر المنضود)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411100364
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن