بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عیسویت کے دعویدار اور حرمت زنا کے انکاری کی بیوی کا حکم


سوال

میری شادی کو تقریباًتین سال ہورہے ہیں،لیکن میں اپنے شوہر سے چار ماہ بعد الگ ہوگئی تھی،ایک ماہ میں مجھ سے شوہر غلط باتیں کرنے لگا،کبھی کہتا تھا کہ میں نے اللہ تعالی کو دیکھا ہے،کبھی کہتا تھا کہ میں عیسی ہوں،میں امام مہدی ہوں ،اس بات پر گواہ بھی ہیں۔

اس کے علاوہ مجھ سے کہتا تھا کہ ہماری کمپنی میں لوگ بیوی کو پارٹنر شپ پہ چلاتے ہیں اور اس کی وجہ سے بڑا عہدہ ملتا ہے،ایک بندے کے ایک ہزار،دو بندوں کے دوہزار،اس طرح جتنے بندے بڑھتے جائیں گے،پیسے بڑھتے جائیں گے۔

مذکورہ بالا الفاظ سے متعلق ہم نے فتوی لیا تھا تو جواب میں کہا گیا تھا کہ ان سے طلاق لی جائے،وہ اپنے رویہ سے باز نہیں آیا تو ہم نے طلاق کی بات کی،جرگے بٹھائے،لیکن وہ کسی جرگے میں نہیں آیا،اب میں اس سے کیسے خلاصی حاصل کروں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کا بیان درست ہے تو سائلہ کا شوہر اپنے عیسی علیہ السلام ہونے کا دعوی کرنے سے اور منسلکہ استفتاء کی رو سے زنا کی حرمت کا انکار کرنے سے دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا تھا اور  سائلہ کا نکاح اس سے ختم ہوگیا تھا،چونکہ سائلہ کی عدت(مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو تو اور اگر حمل ہو توبچہ کی پیدائش تک) گزر چکی ہے اس لیے سائلہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے،شوہر سے طلاق لینا ضروری نہیں ہے،باقی سائلہ عدالت سے بھی فیصلہ حاصل کرے تاکہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں کسی قانونی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

صحیح البخاری میں ہے:

"... ولا تقوم الساعة حتى يبعث ‌دجالون كذابون، قريبا من ثلاثين، كلهم يزعم أنه رسول الله."

(کتاب المناقب،باب علامات النبوۃفی الاسلام،ج:3،ص:1320،ط:دار ابن کثیر)

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"هو لغة الراجع مطلقا وشرعا (الراجع عن دين الإسلام وركنها إجراء كلمة الكفر على اللسان بعد الإيمان)...والكفر لغة: الستر. وشرعا: تكذيبه - صلى الله عليه وسلم - في شيء مما جاء به من الدين ضرورة"

(کتاب الجہاد،باب المرتد،ج:4،ص:221-223،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"(وارتداد أحدهما) أي الزوجين (فسخ)."

(کتاب النکاح،باب نکاح الکافر،ج:3،ص:193،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ارتد أحد الزوجين عن الإسلام وقعت الفرقة بغير طلاق في الحال قبل الدخول وبعده الخ."

(کتاب النکاح،الباب العاشر فی نکاح الکفار،ج:1،ص:339،ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضا:

"إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج."

(کتاب الطلاق،الباب الثالث عشر فی العدۃ،ج:1،ص:526،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100102

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں