1سوال یہ ہے کہ کسی کے انتقال کے بعد قصبہ کے لوگوں کو جمع کر کے قرآن خوانی کرنا کیسا ہے؟
2ہمارے یہاں کسی کا انتقال ہو جاتا ہے تو لوگ قریب کے مدرسہ میں جاکر وہاں سے کچھ طلبہ کو اپنے ہمراہ لے کر اپنے گھر لاتے ہیں۔اور ان طلبہ سے مرنے والوں کے لئے ختم کراتے ہیں (پاروں کو اپنے مابین تقسیم کر تے ہیں) کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟
3ختم القرآن کے بعد پھر وہ لوگ ان کے یہاں کھانا مٹھائی وغیرہ کھاتے ہیں کیا ان کے لئے یہ کھانا جائز ہے یا نہیں۔۔۔۔مفتی صاحب دلائل کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
قرآن کا پڑھنا خیر وبرکت کا ذریعہ ہے، اور اس کے پڑھنے کا ثواب لوگوں کو پہنچتا ہے، لہذا ایصالِ ثواب یا برکت کے حصول کے لیے قرآن خوانی کرنا بلاشبہ دُرست ہے، لیکن اس میں چند اُمور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
اوّل:… یہ کہ جو لوگ بھی قرآن خوانی میں شریک ہوں، ان کا مطمحِ نظر محض رضائے الٰہی ہو، اہلِ میت کی شرم اور دِکھاوے کی وجہ سے مجبور نہ ہوں، اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی نکیر نہ کی جائے، بلکہ انفرادی تلاوت کو اجتماعی قرآن خوانی پر ترجیح دی جائے کہ اس میں اِخلاص زیادہ ہے۔
دوم:… یہ کہ قرآنِ کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، غلط سلط نہ پڑھا جائے، ورنہ اس حدیث کا مصداق ہوگا کہ:" بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے!"
سوم:… یہ کہ ایصال ثواب کے لیے کی گئی قرآن خوانی کسی معاوضہ پر نہ ہو، ورنہ قرآن پڑھنے والوں ہی کو ثواب نہیں ہوگا، میت کو کیا ثواب پہنچائیں گے؟ فقہاء کرام نے تصریح کی ہے کہ قرآن خوانی کے لیے دعوت کرنا اور صلحاء و قراء کو ختم کے لیے یا سورہٴ انعام یا سورہٴ اِخلاص کی قرأت کے لیے جمع کرنا مکروہ ہے، اور اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ تلاوتِ قرآن پر اجرت ہے جو کہ ناجائز ہے۔
چہارم:۔۔۔ یہ ہے کہ ایصال ثواب کے لئےکوئی خاص دن یا تاریخ متعین نہ ہو۔
اور جہاں ان شرائط کا لحاظ نہ کیا جائے تو وہاں اس طرح اجتماعی قرآن خوانی کرنا درست نہ ہوگا، اور اگر مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کی جائے، اور اجتماعی طور پر قرآن خوانی کو لازم نہ سمجھا جائے، بلکہ اگر اتفاقاً اکٹھے ہوجائیں یا وہاں موجود لوگ مل کر قرآن خوانی کرلیں، یا اگر کوئی پڑھنے والا دست یاب نہ ہو تو جو پڑھنا جانتے ہیں ان سے پڑھوا لیا جائے اور اس پر اجرت لینے دینے کا معاملہ نہ ہو ، اور اس کے عوض دعوت کا التزام بھی نہ ہو، اور خاص تاریخ یا دن کی تخصیص بھی نہ ہو تو یہ جائز ہے۔
اور اگر علاج یا شفا کے لیے یا قید سے رہائی کے لیے وظیفہ کے طور پر قرآن پڑھوایا جائے تو اس پر عوض لینا یا پڑھنے والوں کو ان کے عوض دینا جائز ہے، جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے بیمار کو دم کرنے پر تیس بکریوں کا ریوڑ مقرر کیا تھا، اور حضور ﷺ نے اس سے انکار نہیں فرمایا۔
صحيح البخاري (7/ 132):
" عن ابن عباس: أن نفراً من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم مروا بماء، فيهم لديغ أو سليم، فعرض لهم رجل من أهل الماء، فقال: هل فيكم من راق، إن في الماء رجلاً لديغاً أو سليماً، فانطلق رجل منهم، فقرأ بفاتحة الكتاب على شاء، فبرأ، فجاء بالشاء إلى أصحابه، فكرهوا ذلك وقالوا: أخذت على كتاب الله أجرا، حتى قدموا المدينة، فقالوا: يا رسول الله، أخذ على كتاب الله أجراً، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن أحق ما أخذتم عليه أجراً كتاب الله»".
احیاء علوم الدین میں ہے:
"قال أنس بن مالك: رب تال للقرآن والقرآن يلعنه."
(کتاب آداب تلاوة القرآن، الباب الأول في فضل القرآن وأهله، وذم المقصّرین في تلاوته، 274/1، ط: دارالمعرفة)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 56):
"فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211200380
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن