بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عیسائی لڑکے کے ساتھ تعلق بنانے والی مسلمان لڑکی کے قتل کا حکم


سوال

 ایک لڑکی گھر سے بھاگ کر عیسائی سے نکاح کرتی ہے،  اور پھر پکڑے جانے پر طلاق ہو جاتی ہے ، لیکن پھر بھاگ  کر اسی کے پاس جاتی ہے ،  بار بار یہی ہوتا ہے کیا اس کا قتل جائز ہے ،  جب کہ سارا خاندان اس کی  وجہ سے ذلیل ہو رہا ہے۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں مذکورہ لڑکی کا اس عیسائی سے  کیا ہوا نکاح  باطل ہے لیکن اس بناپر اس کو قتل کرنا جائز نہیں ، البتہ  عدالت  سے اس کو سخت سے سخت سزا دلوائی جاسکتی ہے اور اگر عدالت سزا نہ دے تو ایک غیر مسلم کے ساتھ نکاح سے روکنے کے لیے لڑکی کے اولیاء اپنا تادیبی حق استعمال کرسکتے ہیں ؛ کیوں کہ منکر کے ازالے کےلیے شریعت عام مسلمانوں کو بھی  ان کے دائرے میں رہتے ہوئے ازالۂ  منکر کا حق دیتی ہے،  البتہ اس لڑکی کا قتل جائز نہیں ہے۔ 

لڑکی کے اولیاء کو روکنے کا حق اس لیے بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں جہاں مسلمان عورت کے کسی بھی غیر مسلم مرد کے ساتھ نکاح کو ممنوع قرار دیا ہے، وہاں مسلمان خواتین کے مرد اولیاء کو ہی خطاب کیا ہے کہ مسلمان خواتین  کا نکاح مشرکین سے نہ کرو، اور مسلم معاشرے میں نکاح کا انتظام کرانے کی ذمہ داری اولیاءِ لڑکی کو دی  گئی ہے؛ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے اس اختیار کی بنا پر  لڑکی کے اولیاء اسے روکنے میں حق بجانب ہیں، تاہم قتل کی اجازت نہیں ہوگی، جیساکہ لکھا جاچکا ہے۔

قرآن مجید میں ہے :

"وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ  أُولَٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ۖ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ  ."(سورۃ البقرہ 221)

ترجمہ :"اور نکاح مت کرو کافر عورتوں کے ساتھ جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجائیں اور مسلمان عورت (چاہے ) لونڈی (کیوں نہ ہو وہ ہزار درجہ )بہتر ہے کافر عورت سے گو وہ تم کو اچھی ہی معلوم ہو اور عورتوں کو کافر مردوں کے نکاح  میں مت دو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجائیں اور مسلمان مرد غلام بہتر ہے کافر مرد سے گو وہ تم کو اچھا ہی معلوم ہو (کیوں کہ ) یہ لوگ دوزخ (میں جانے کی ) تحریک دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جنت اور مغفرت کی تحریک دیتے ہیں اپنے حکم سے اور اللہ تعالیٰ اس واسطے آدمیوں کو اپنے احکام  بتلاتے ہیں تاکہ وہ لو گ نصیحت پر عمل کریں ۔"(از بیان القرآن )

بدائع الصنائع میں ہے :

"ومنها: إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمةً فلايجوز إنكاح المؤمنة الكافر؛ لقوله تعالى: {ولاتنكحوا المشركين حتى يؤمنوا} [البقرة: 221] ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين إليه وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل: {أولئك يدعون إلى النار}[البقرة: 221] لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر، والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار؛ لأن الكفر يوجب النار، فكان نكاح الكافر المسلمة سببًا داعيًا إلى الحرام فكان حرامًا، والنص وإن ورد في المشركين لكن العلة، وهي الدعاء إلى النار يعم الكفرة، أجمع فيتعمم الحكم بعموم العلة فلايجوز إنكاح المسلمة الكتابي كما لايجوز إنكاحها الوثني والمجوسي؛ لأن الشرع قطع ولاية الكافرين عن المؤمنين بقوله تعالى: {ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلًا} [النساء: 141] فلو جاز إنكاح الكافر المؤمنة لثبت له عليها سبيل، وهذا لايجوز".

(کتاب النکاح ، فصل ‌إسلام ‌الرجل ‌إذا ‌كانت ‌المرأة مسلمة ج: 2 ص: 271 ط: دار الكتب العلمية)

طبقات کبرى میں ہے :

"عن أبي أمامة بن سهل قال: كنت مع عثمان في الدار وهو محصور. قال وكنا ندخل مدخلا إذا دخلناه سمعنا كلام من على البلاط. قال فدخل عثمان يوما لحاجة فخرج منتقعا لونه فقال: إنهم ليتوعدونني بالقتل آنفا. قال قلنا:يكفيكهم الله يا أمير المؤمنين. قال: ولم يقتلونني وقد سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول لا يحل دم امرئ مسلم إلا في إحدى ثلاث: ‌رجل ‌كفر ‌بعد ‌إيمانه أو زنى بعد إحصانه أو قتل نفسا بغير نفس".

(الصاحبة ، ذكر الطبقة الأولى ، عثمان بن عفان ج: 3 ص: 49 ط: دار الكتب العلمية)

التشریع  الجنائی میں ہے :

"والتعازير هي مجموعة من العقوبات غير المقدرة، تبدأ بأتفه العقوبات كالنصح والإنذار، وتنتهي بأشد العقوبات كالحبس والجلد، بل قد تصل للقتل في الجرائم الخطيرة، ويترك للقاضي أن يختار من بينها العقوبة الملائمة للجريمة ولحال المجرم ونفسيته وسوابقه ...... وتركت للقاضي أن يختار من بينها العقوبة التي يراها كفيلة بتأديب الجاني واستصلاحه وبحماية الجماعة من الإجرام، وللقاضي أن يعاقب بعقوبة واحدة أو بأكثر منها، وله أن يخفف العقوبة أو يشدها إن كانت العقوبة ذات حدين، وله أن يوقف تنفيذ العقوبة إن رأى في ذلك ما يكفي لتأديب الجاني وردعه واستصلاحه".

(‌‌‌‌الباب الثاني أقسام العقوبة ، الفصل الرابع عقوبات التعازير ج: 1 ص: 685 / 686 ط: دار الكاتب العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100982

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں