بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اس زمانے سفتجہ کا کیا حکم ہے؟ اور بینک میں کرنٹ اکاؤٹ کا کیا حکم ہے؟


سوال

1)  سفتجہ کا کیا حکم ہے اس وقت؟ 

        2)   اور بینک کرنٹ اکاؤٹ کا حکم؟

جواب

1۔ سفتجہ وہ کسی تاجر وغیرہ  کچھ رقم بطور قرض دینا اس طور پر دینا کہ  وہ  اسے دوسرے ملک یا  شہر  میں دینے والے کے  دوست کو ادا کرے،  تاکہ راستےکے خطرات سے فائدہ اٹھایا جا سکے،  موجودہ  زمانے میں بھی  راستے کے خطرات سے بچنے کی غرض سے کسی کو قرض دینا مکروہ ہے، البتہ سفتجہ کا وجود آج کل نہیں، اور آج کل ہنڈی کے نام سے جو  رقم کا انتقال ایک ملک یا شہر دوسرے ملک یا شہر کی جاتی ہے،  وہ سفتجہ میں نہیں آتا،   علامہ عبد الحی رحمہ اللہ  شرح الوقایہ کے  حاشیے  میں لکھتے ہیں کہ: سفتجہ ہنڈی نہیں، کیوں کہ  سفتجہ میں  راستے کے خطرات سے  حفاظت پیش نظر ہوتی ہے، اور ہنڈی تو ترسیل کا کام ہے۔ ہنڈی کا حکم درج ذیل ہے:

ہنڈی کا کاروبار ملکی وبین الاقوامی قوانین کی رو سے ممنوع ہے ؛ اس لیے رقم کی ترسیل کے لیے جائز قانونی راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے ، البتہ اگر کسی نے ہنڈی کے ذریعے رقم بھجوائی تو اسے مندرجہ ذیل شرعی حکم کی تفصیل ملحوظ رکھنا لازمی ہے :

الف۔ چوں کہ مروجہ ہنڈی (حوالہ) کی حیثیت قرض کی ہے؛ اس لیے جتنی رقم دی جائے اتنی ہی رقم آگے پہنچانا ضروری ہے، اس میں کمی بیشی جائز نہیں ہے، البتہ بطورِ فیس/اجرت الگ سے طے شدہ اضافی رقم لی جاسکتی ہے۔

ب۔ کرنسیوں کے مختلف ہونے کی صورت میں (جیسا کہ سوال میں ایک طرف کرنسی درہم ہے اور دوسری طرف پاکستانی روپیہ ہے ) لازم ہے کہ دوسرےملک جہاں قرض کی ادائیگی کرنی ہے ( مثلاً پاکستان میں) ادائیگی کے وقت یا تو قرض لی ہوئی کرنسی (مثلاً درہم )  ہی پوری پوری واپس کرے یا پھر  جتنے درہم قرض  دیے گئے تھے ادائیگی یا وصولیابی کے دن پاکستان میں درہم کے جو ریٹ چل رہے ہوں ان میں سے ہی کسی ایک ریٹ کے مطابق، قرض دیے گئے درہم کے جتنے پاکستانی روپے بنتے ہوں، پاکستان میں ادا کیے جائیں،  درھم کے  مارکیٹ ریٹ سے کم یا زیادہ  طے کر کے لین دین کرنا جائز نہیں ہے۔ اجرت جدا گانہ طے کی جائے۔

لسان الحکام میں ہے:

"وتكره السفتجة وهي أن يدفع إلى تاجر مالا بطريق الإقراض ليدفعه إلى صديق له في بلد آخر لسقوط خطر الطريق ،  وإنما سمي الإقراض المذكور بهذا الاسم تشبيها له بوضع الدراهم في السفاتج في الأشياء المجوفة كما تجعل العصا مجوفة ويخبأ فيها المال وإنما شبه به لأن كلا منهما احتال لسقوط خطر الطريق أو لأن أصلها أن الانسان إذا أراد السفر وله نقد واراد إرساله إلى صديقه فوضعه في سفتجة ثم مع ذلك خاف خطر الطريق فأقرض ما في السفتجة إنسانا آخر فأطلق السفتجة على إقراض ما في السفتجة ثم شاع في الإقراض لسقوط خطر الطريق انتهى كلام صدر الشريعة .  وفي المنبع ويكره قرض يستفاد به من أمن الطريق صورته رجل دفع إلى تاجر عشرة دراهم قرضا ليدفعه إلى صديقه ليستفيد به سقوط خطر الطريق وهو معنى قوله وتكره السفاتج وهي جمع سفتجة بضم السين وفتح التاء وإنما يكره ذلك لقوله صلى الله عليه وسلم كل قرض جر نفعا فهو ربا وإنما قال ويكره قرض الخ لأنه إنما دفعه على سبيل القرض إليه فجر نفعا وهو أمن الطريق فإنه حرام والله أعلم ".

(لسان الحكام:الفصل الرابع في الوكالة والكفالة والحوالة  (ص:261)، ط.  البابي الحلبي، سنة النشر 1393 - 1973)

مولانا عبد الحی لکنھوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"ويجب أن يعلم أن التي في زماننا المسماة  في لساننا (بهندي: مني آردر) ليس من هذا ، ولا له حكم السفاتج؛  لان السفاتج كانت لسقوط خطر الطريق، وذا للوصول".

(هامش شرح الوقاية: كتاب الحوالة (3/ 119)، ط. مير محمد  كتب خانه كراتشي)

"تنقیح الفتاوی الحامدیة"میں ہے:

"الدیون تقضیٰ بأمثالها".

(کتاب البیوع، باب القرض(1/ 500)، ط. قديمي)

الدر المختار  میں ہے:

"و في الأشباه: کل قرض جر نفعاً حرام".

(الدر المختار مع رد المحتار: کتاب البیوع، فصل فی القرض (5/ 166)، ط. سعيد) 

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"ويتم التعبير عن هذا القرض بتسليم المقرض وصلاً (وثيقة)، يثبت حقه في بدل القرض، ويكون المقترض وهو الصراف أو البنك ضامناً لبدل القرض، ولكنه يأخذ أجراً أو عمولةً على تسليم المبلغ في بلد آخر مقابل مصاريف الشيك أوأجرة البريد أو البرقية أو التلكس فقط؛ لتكليف وكيل الصراف بالوفاء أو السداد. وهذان العقدان: الصرف والتحويل القائم على القرض هما الطريقان لتصحيح هذا التعامل، فيما يبدو لي، واللہ اعلم

وأما الحوالة البريدية في داخل الدولة بدون صرافة فجائزة بلا خلاف: فإن سلم المبلغ للموظف أمانة جاز بلا كراهة، ولا يضمنه إلا بالتعدي أو التقصير في الحفظ، لكن إذا خلطت المبالغ والحوالات ببعضها وهو مايتم بالفعل كانت مضمونة على المؤسسة. 

ب ـ وإن أعطي المبلغ قرضا دون شرط دفعه إلى فلان، ثم طلب من الموظف ذلك بعد القرض؛ جاز.

جـ ـ وإن أعطي المبلغ قرضا بشرط دفعه إلى فلان في بلد كذا، فإن لم يقصد المقرض ضمان المقترض خطر الطريق، جازت الحوالة بالاتفاق، وإن قصد بذلك ضمان خطر الطريق لم يصح العقد عند الجمهور كالسفتجة كما بينت في بحث القرض، وجازت المعاملة عند الحنابلة. "

(الفقه الإسلامي:المبحث السادس - أنواع البيوع، ما يترتب على اشتراط قبض البدلين في مجلس عقد الصرف قبل الافتراق، (5/ 331)، ط. دار الفكر - سوريَّة - دمشق)

2۔ بہتر تو یہی ہے کہ اگر ضرورت نہ ہو تو کرنٹ اکاؤنٹ بھی نہ کھلوایا جائے، لیکن اگر بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے کی ضرورت ہو تو کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے کی گنجائش ہے؛اس لیے کہ کرنٹ اکاؤںٹ ہولڈر کو یہ اختیار ہوتاہے کہ وہ جب چاہے اور جتنی چاہے اپنی رقم بینک سے نکلوالے گا، اور بینک اس کا پابند ہوتا ہے کہ اس کے مطالبہ پر رقم ادا کرے، اور اکاؤنٹ ہولڈر اس بات کا پابند نہیں ہوتا کہ وہ رقم نکلوانے سے پہلے بینک کو پیشگی اطلاع دے، اور اس اکاؤنٹ پر بینک کوئی نفع یا سود بھی نہیں دیتا، بلکہ اکاؤنٹ ہولڈر حفاظت وغیرہ کی غرض سے اس اکاؤنٹ میں رقم رکھواتے ہیں۔ نیز بینک اس اکاؤنٹ میں رکھی گئی رقم کا ایک حصہ اپنے پاس محفوظ بھی رکھتے ہیں؛ تاکہ اکاؤنٹ ہولڈر جب بھی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرے  تو اس کی ادائیگی کی جاسکے، اس ساری صورتِ حال میں اکاؤنٹ ہولڈر کے لیے اس کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانے کی گنجائش ہے۔ اور جو بینک اس سے سودی کام کرے گا اس کا گناہ متعلقہ ذمہ داران کو ہوگا، نہ کہ اکاؤنٹ ہولڈر کو۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100681

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں