بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اس سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے سے طلاق کا حکم


سوال

میری بچی کی شادی ہوئی، اس کے شوہر نے اس کا خیال نہیں رکھا، بہت تکلیف دی، اس کی طبیعت خراب تھی، شدید بیمار تھی، ہم اس کے شوہر کو فون کرتے رہے، بچی کو بھی فون کیا، لیکن شوہر نے فون نہیں اٹھایا اور بچی کو بھی ہم سے رابطہ کرنے سے منع کردیا، علاج بھی نہیں کروارہے تھے اور ہم سے رابطے کی بھی اجازت نہیں تھی، اس کے بعد ہم (بچی کا والد اور والدہ) ان کے گھر گئے، بچی کو اپنے ساتھ گھر لانے لگے، اس کے شوہر نے کہا کہ"آپ لے کر جارہے ہیں، اب آپ خود ذمہ دار ہیں"، جب میری بچی گھر سے باہر نکلی تو اس کے شوہر نے کہا:"یہ تو باہر چلی گئی ہے، اب واپس تھوڑی نہ آئے گی، اب اس سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے۔" اس کے بعد بچی ہمارے ساتھ گھر آگئی، شوہر نے دوبارہ کوئی رابطہ نہیں کیا۔اب ہم عمرے کے لیے جارہے ہیں، اس بچی کو بھی ساتھ لے جانے کا ارادہ ہے۔

1۔سوال یہ ہے کہ شوہر نے جو الفاظ کہے تھے، ان کا کیا حکم ہے؟

2۔اگر ہم شوہر کو اطلاع کیے بغیر بچی کو عمرے پر لے جائیں، تو اس بارے میں کیا حکم ہے؟

وضاحت:کہے گئے جملوں کے بارے میں  لڑکے کی نیت کے بارے میں معلوم نہیں ہے۔

مذکورہ واقعہ تقریبا ایک ماہ پہلے کا ہے ۔

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں آپ کی بیٹی کے شوہر نے یہ الفاظ"یہ تو باہر چلی گئی ہے، اب واپس تھوڑی نہ آئے گی، اب اس سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے" اگر طلاق کی نیت سے کہے تھے تو اس صورت میں ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے، دونوں کا نکاح ختم ہوگیا ہے، البتہ اگر  دونوں دوبارہ ازدواجی زندگی گزارنا چاہیں تو دورانِ عدت یا عدت ختم ہونے کے بعد نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ  عقد   کرسکتے  ہیں، تاہم اس کے بعد شوہر کو صرف دو طلاقوں کا حق ہوگا۔

لیکن اگر شوہر نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے نہیں کہے تھے، تو اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، دونوں کا نکاح بدستور باقی ہے۔

2۔اگر لڑکا رابطہ نہیں کر رہا تو آپ اپنے خاندان کے افراد کے ذریعے یا علاقے کے معزرین کے ذریعے رابطہ کر کے لڑکے کی نیت معلوم کریں، اگر لڑکے کی طلاق کی نیت تھی تو لڑکی ابھی عدت میں ہے، جب تک اس کی عدت (جو تین ماہواریاں ہیں، اگر حمل ہو تو وضعِ حمل ہے) کا دورانیہ مکمل نہ ہو، اس وقت تک عمرے پر لے جانا درست نہیں، اور اگر شوہر کی نیت طلاق کی نہیں تھی، لیکن شوہر نے کوئی واسطہ بھی نہیں رکھا، نہ لڑکی کے کہیں آنے جانے پر اعتراض کیا ہے، تو شوہر کی اجازت کے بغیر بھی عمرے کے لیے  جا سکتی ہے، البتہ شوہر کو راضی کر کے جانا بہتر ہے، نیز شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ بیوی کو اس کے جائز حقوق ادا کر کے گھر بسائے اور اگر لڑکی والدین کے ساتھ عمرے پر جانا چاہتی ہو اور اس کے جانے سے شوہر کے امور میں کوئی خلل واقع نہیں ہو رہا تو بلا عذر والدین کے ساتھ عمرے کے لیے جانے سے نہ روکے۔ 

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وفي الفتاوى ‌لم ‌يبق ‌بيني ‌وبينك عمل ونوى يقع، كذا في العتابية."

(كتاب الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق، ج:١، ص:٣٧٦، ط:رشيدية)

وفیہ ایضاً:

"وفي ‌النافلة ‌لا ‌تخرج بغير إذن الزوج."

(كتاب المناسك، الباب الأول في تفسير الحج وفرضيته ووقته وشرائطه وأركانه، ج:١، ص:٢١٩، ط:رشيدية)

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"اگر شوہر نے یہ لفظ کہ مجھ سے تجھ سے کچھ واسطہ نہیں ہے بہ نیت طلاق کہا ہے تو اس کی زوجہ پر ایک طلاقِ بائنہ واقع ہوگئی، عدت کے بعد دوسرا نکاح اس عورت کو درست ہے اور اگر بہ نیت طلاق اس نے یہ لفظ نہیں کہا یا سرے سے وہ اس لفظ کے کہنے سے انکار کرتا ہے تو چوں کہ گواہی شرعی پوری موجود نہیں ؛اس لیے طلاق ثابت نہ ہوگی اور نیت کا حال شوہر سے دریافت کرنے سے معلوم ہو سکتا ہے۔"

(کتاب الطلاق، باب چہارم کنایات، ج:9، ص:292، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں