اگر کوئی شخص کسی کو اپنی گاڑی کرائے پر دے اور یہ طے کرے کہ آپ ماہانہ دس ہزار روپے کرایہ ادا کرنے کے پابند ہوں گے، اور گاڑی میں کوئی نقصان ہوا یا کام نکلا تو آپ ہی ذمہ دار ہوں گے، اس نقصان کا خرچہ میں نہیں اٹھاؤں گا۔ اس اجارے کا کیا حکم ہے؟
واضح ہو کہ عقدِ اجارہ (کرایہ داری) کا اصول یہ ہے کہ کوئی ایسی شرط نہ لگائی جائے جو اجارے کے مقتضا کے خلاف ہو۔ کرائے پر دی جانے والی چیز کی مرمت کے کام کا خرچہ اس چیز کے مالک پر ہوتا ہے، البتہ اگر کرایہ دار کی غلطی کی وجہ سے خرچہ نکلا ہو تو وہ کرایہ دار پر ہوگا۔ صورت مسئولہ میں مذکورہ شرط لگانے کی وجہ سے اجارہ فاسد ہوجائے گا اس لیے کہ یہ شرط اجارے کے مقتضا کے خلاف ہے،لہذا نقصان کی ذمہ داری کرایہ دار کی طرف سے تعدی نہ ہونے کی صورت میں کرایہ دار پر نہ ڈالے۔
فتاوی حامدیہ میں ہے :
"وسئل أيضا عن معنى قولهم ويجب في الإجارة الفاسدة أجر المثل لا يجاوز المسمى فأجاب معناه أن يستأجر شخص شيئا بأجرة معلومة لكن يشترط في صلب العقد مثلا أن مرمة الدار أو علف الدابة على المستأجر فهذا شرط يفسد العقد؛ لأن المرمة والعلف على المؤجر فإذا استوفى المستأجر المنفعة في هذه الإجارة الفاسدة فالواجب عليه أجر المثل۔"
(۲ ؍ ۱۲۳، دار المعرفۃ)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144307200041
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن