بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

اس موبائل سم پر کسی کے ساتھ بات کی تو تم مجھ پر حرام ہو


سوال

میرے شوہر نے شادی کے بعدایک دن  مجھے کہاکہ:اس موبائل سم پر تم نے کسی کے ساتھ بھی بات کی،توتم مجھ پر حرام ہو،اس کے بعد میں نے اس سم پر اپنی چچا زاد بہن سے بات کرلی۔

اس کے ایک سال بعدمیں اپنے بہنوئی کے ساتھ بازار جارہی تھی،شوہر کا فون  آیا کہ:اگر تم اس بہنوئی کے ساتھ بازار گئی تو تم مجھ پر حرام ہو،میں اس وقت اس  بہنوئی کے ساتھ بازار چلی گئی ، اس وقت میرے ساتھ میرا چھوٹا بھائی بھی تھا۔

میرے شوہر دوستوں کے ساتھ سیر و تفریح پر جاتے رہتے ہیں ،میں نے کہا:آپ خود تو سیر سپاٹے کرتے رہتے ہیں، مجھے گھر میں تنہا بٹھا رکھا ہے، ایسا کریں مجھے آزاد کردیں۔ انہوں نے کہا: میں نے تمہیں آزاد کر دیا ۔میں نے شوہر سے پوچھا: آزاد کرنے  سے آپ کی کیا مراد ہے؟ شوہر نے کہا: جو تم نے مراد لیا ہے ۔میں نے کہا :میرا تو طلاق کا ارادہ تھا،اس پر شوہر خاموش ہو گئے۔

میرا ایک سات سال کا چھوٹا بچہ ہے،ان واقعات کے بعد کئی عدتیں گزر چکی ہیں۔توسوال یہ ہےکہ:

صورت مسئولہ  میں طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں ؟واقع ہو چکی ہے تو بائن ہے یا مغلظہ؟

شوہرکے ساتھ رہنے کے لئےصرف نکاح  جدید کافی ہوگا یا حلالہ شرعی کی ضرورت ہے؟

کسی اور جگہ نکاح کرنے کا کیا حکم ہے؟

 

جواب

بصدق واقعہ صورت مسئولہ میں نکاح کے بعد جب سائلہ  کے شوہر نے اسے یہ کہا کہ :"اس موبائل سم پراگر آپ نے کسی کے ساتھ بھی بات کی ،تو تم مجھ پر حرام ہو"توا س سے ایک طلاق بائن معلق ہوگئی تھی،پس جب  سائلہ نے اس موبائل سم سے اپنی چچا زاد بہن سےبات کی،تواس سے سائلہ پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی تھی اور نکاح ٹوٹ گیا تھا،تجدیدنکاح کے بغیر شوہر کے ساتھ رہنا حرام تھا،تجدید نکاح کےبغیر ایک ساتھ رہنے پر دونوں سخت گناہ گار ہوئے ہیں،اس پر دونوں کوتوبہ واستغفار کرنا لازم ہوگا۔

نیز  بہنوئی کے ساتھ جاتے ہوئےسائلہ کے سابق شوہرنےجوالفاظ کہے تھے، نکاح برقرار نہ رہنے کی وجہ سے اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہ ہوئی ،اسی طرح مذکورہ شخص نے جب اسے یہ الفاظ کہےکہ:"میں نے تمہیں آزاد کردیا"سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

پس مسئولہ صورت میں میاں بیوی کی حیثیت سے ساتھ رہنے کے لیےباہمی رضامندی سےنیا مہر مقرر کرکےتجدیدنکاح کرنا ضروری ہوگا،تجدید نکاح کےبعد آئندہ کےلیےصرف دوطلاق دینے کاشوہر کو حق حاصل ہوگا،تاہم سائلہ اگر مذکورہ شخص سے دوبارہ نکاح کرنے پرآمادہ نہ ہو،تو فوری طور پر اس سے علیحدگی اختیار کرکےمکمل تین ماہواریاں،اگر حمل نہ ہو اور ماہواری آتی ہو،حمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش کاعرصہ بطور عدت گزارناضروری ہوگا،عدت کےبعد سائلہ کےلیےکسی اور شخص سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(کتاب الطلاق، الباب الرابع فی الطلاق بالشرط، ج: 1، ص: 420، ط: دارالفکر)

شامی میں ہے:

"ومن الألفاظ المستعملة: ‌الطلاق ‌يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف.

(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر...كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية".

(کتاب الطلاق، باب صریح الطلاق، ج: 3، ص: 252، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولا يجري اللعان بينهما ولا يجري التوارث ولا يحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية."

(کتاب الطلاق، فصل في حکم الطلاق البائن، ج: 3، ص: 187، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا دخل الرجل بامرأة على وجه شبهة أو نكاح فاسد فعليه المهر وعليها العدة ثلاث حيض إن كانت حرة ... وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي ... وسواء كانت عن طلاق أو وفاة أو متاركة أو وطء بشبهة كذا في النهر الفائق."

(کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدۃ، ج: 1، ص: 527،528، ط: دارالفکر)

وفیہ ایضا:

"لو طلقها بتطليقة بائنة أو بتطليقتين بائنتين، ثم وطئها في العدة مع الإقرار بالحرمة كان عليها أن تستقبل العدة استقبالا بكل وطأة، وتتداخل مع الأولى إلا أن تنقضي الأولى فإذا انقضت الأولى وبقيت الثانية والثالثة كانت الثانية والثالثة عدة الوطء حتى لو طلقها في هذه الحالة لا يقع طلاق آخر فالأصل أن المعتدة بعدة الطلاق يلحقها الطلاق والمعتدة بعدة الوطء لا يلحقها الطلاق."

(كتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة، ج: 1، ص: 532، ط: رشيدية)

احسن الفتاوی میں ہے:

"لفظ"حرام"طلاقِ صریح بائن ہے،اس سے بدونِ نیت بھی  طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے۔"

(کتاب الطلاق ، ج: 5، ص: 183، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610102172

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں