بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایران سے غیر قانونی ڈیزل لانے کے بارے میں شرعی تفصیل


سوال

عرض یہ ہے، کہ آپ کے گوگل میں (144406100219)نمبر کے فتوی کے مطابق ایرانی ڈیزل غیر قانونی طریقے سے پاکستان لانا پھر اس کو بیچنا اس کے جواز کا فتوی دیا ہے،  اب عرض یہ کہ موقع پر موجود آفیسر کو رشوت دیتا ہے،  اب یہ رشوت دینے والا گنہگار ہوگا ، کہ نہیں رشوت دینے والا کہتا ہے کہ جائز کاروبار کرتا ہوں،  مجبوری سے رشوت دیتا ہوں ،  برائے مہربانی رہنمائی کریں کہ رشوت دینے والا گنہگار ہوگا کہ نہیں؟

جواب

ایرانی  ڈیزل  اسمگلنگ  کے ذریعے لانا قانوناً  جرم ہے، اورمفادِ عامہ  کی خاطر اگر حکومتی سطح پر جائز اشیاء  کی اسمگلنگ ممنوع ہو تو  اس سے اجتناب  کیا جائے؛ کیوں کہ کسی بھی ریاست میں رہنے والا شخص اس ریاست میں رائج قوانین پر عمل درآمد کا (خاموش)  معاہدہ کرتاہے، اور جائز امور میں معاہدہ کرنے کے بعد اسے پورا کرنا چاہیے؛  اس طرح کے جائز امور سے متعلق قانون کی خلاف ورزی گویا معاہدہ کی خلاف ورزی ہے، نیز قانون شکنی کی صورت میں  مال اور عزت کا خطرہ رہتا ہے، اور پکڑے جانے کی صورت میں مالی نقصان کے ساتھ ساتھ سزا ملنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے،  اور اپنے آپ کو ذلت  کے مواقع سے بچانا ضروری ہے، جب کہ اس سے بچنے کے لیے دی جانے والی رقم رشوت ہے، اور رشوت کا لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں۔

 البتہ  جائز اشیاء   کی اسمگلنگ سے جو  نفع  حاصل  ہو گا  وہ حرام نہیں ہو گا، (گو رشوت دینے کا گناہ اور جائز قانون کی خلاف ورزی کا وبال رہے گا) یعنی گناہ گار ہوگا۔

آپ نے جس فتوی نمبر (144406100219) کا حوالہ دیا ہے،  اس فتوی میں علی الاطلاق جائز نہیں  لکھا ، بلکہ اس میں یہ بھی واضح کیا ، کہ یہ  غیر قانونی کام  ہیں ،عزت ومال  دونوں کا خطرہ ہوتا ہے،  بالخصوص  رشوت دہی کی صورت میں حرام قرار دیا اور اس سے بچنے کا حکم دیا ہے ، اور یہ بات قابل نظر انداز نہیں،  کہ ایسے کاروبار میں غلط بیانی  اور پکڑ ے جانے کی صورت میں  ذلت و رسوائی اور رشوت دہی اس کی مجبوری بن جاتی ہے ، جب کہ رشوت دہی شرعی مجبوری تب  قرار پاتی ہے،  جب اپنا ثابت شدہ حق بغیر رشوت دہی کے  نہ ملے یا پھر ظالم بغیر رشوت دہی کے ظلم سے باز نہ آئے ، جب کہ سوال میں ذکر کردہ  صورت نہ تو ثابت شدہ حق میں آتا ہے اور نہ ہی دفع ظلم میں،  لہذا شرعاً  اس کا جواز نہیں ۔

قران مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّهْلُکَةِ."(البقرة: 195)

ترجمہ:اور (اپنے آپ کو ) اپنے ہاتھوں تباہی میں مت ڈالو(از بیان القرآن)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"{ ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة } الآية :195. التقدير لاتلقوا أنفسكم بأيديكم كما تقول : لاتفسد حالك برايك و التهلكة (بضم اللام) مصدر من هلك يهلك هلاكًا و هلكًا و تهلكةً أي لاتأخذوا فيما يهلككم. وقال الطبري : قوله و لاتلقوا بأيديكم إلى التهلكة عام في جميع ما ذكر لدخوله فيه إذ اللفظ يحتمله."

(سورة البقرة، ج:2، ص: 359،ط:دارالکتب العلمیة)

حدیث شریف میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ’’ألا تظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه ‘‘. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

ترجمہ:’’خبردار کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرو، خبردار کسی آدمی کی ملکیت کی کوئی چیز اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا حلال اور جائز نہیں ہے ۔‘‘

(مشکوٰۃ المصابیح، باب الغصب والعاریة، الفصل الثانی، حدیث:2946، ج:2، ص:889،  ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

سنن ابو داؤد میں ہے:

"عن ‌عبد الله بن عمرو ، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌الراشي والمرتشي»."

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رشوت دینے اور لینے والے پر، اور ان کے درمیان واسطہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘

(كتاب الأقضية،باب في كراهية الرشوة،ج:3،ص:300،ط: المكتبة العصرية)  

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال: «لعن رسول الله ‌الراشي والمرتشي» رواه أبو داود، وابن ماجه.

 (وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهى الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة. وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة ; لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه."

(کتاب الأمارۃ و القضاء، باب رزق الولاۃ و هدایاهم،  ج :4، ص:2437،  ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"و الحاصل أن جواز البیع یدور مع حل الانتفاع، مجتبى."

(كتاب البيوع،باب البيع الفاسد، ج:5، ص: 69، ط: سعید)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"وفي المصباح الرشوة بكسر الراء ما يعطيه الشخص للحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد وجمعها رشا مثل سدرة وسدر...

وفي الخانية الرشوة على وجوه أربعة منها ما هو حرام من الجانبين، وذلك في موضعين: أحدهما إذا تقلد القضاء بالرشوة حرم على القاضي والآخذ وفي صلح المعراج تجوز المصانعة للأوصياء في أموال اليتامى، وبه يفتى ثم قال من الرشوة المحرمة على الآخذ دون الدافع ما يأخذه الشاعر وفي وصايا الخانية قالوا بذل المال لاستخلاص حق له على آخر رشوة. الثاني إذا دفع الرشوة إلى القاضي ليقضي له حرم من الجانبين سواء كان القضاء بحق أو بغير حق، ومنها إذا دفع الرشوة خوفا على نفسه أو ماله فهو حرام على الآخذ غير حرام على الدافع، وكذا إذا طمع في ماله فرشاه ببعض المال ومنها إذا دفع الرشوة ليسوي أمره عند السلطان حل له الدفع ولا يحل للآخذ أن يأخذ."

(کتاب القضاء،أخذ القضاء بالرشوة ، ج:6، ص:285، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100549

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں