بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ارم زاد کا معنی کیا ہے اور یہ نام رکھنا کیسا ہے؟


سوال

ارم زاد کا معنی کیا ہے ؟ اور یہ نام رکھنا کیسا ہے؟



  

جواب

شریعتِ مطہرہ نے مسلمانوں کو اپنے بچوں کے اچھے نام رکھنے کا حکم دیا اور اس کو والدین پر اولاد کا حق قرار دیا ، اور جن ناموں کے معنی اچھے نہیں ہیں ان کو رکھنے سے منع کیا،  خود رسول اللہ ﷺ  نے بہت  سے بچوں  اور بڑوں کے ایسے نام جن کے معنی اچھے نہیں ہوتے ان کو  تبدیل کرکے اچھے معنی والے نام رکھ  دیے؛   لہذا   نام کے اچھا اور بامعنی ہونے کا انسان کی شخصیت پر  اثر پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اچھے نام رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

ان ناموں میں سے پہلا لفظ ’’ارم‘‘ (ہمزہ زیر، راء زبر، میم ساکن) كا معنی   لغت کے اعتبار سے ”ارم“ کے مختلف معانی ہیں:، بہشت کے نمونے پر شداد بن عاد  کا بنوایا ہوا باغ، مجازاً”بہشت، جنت۔“

"(اردو لغت، فیروز اللغات، ، ص:56،ط:فیروز سنز لاہور)

   اسی طرح یہ معانی بھی ہیں  :"داڑھ  ،  صحرائی راستہ کا علامتی پتھر ،  تباہ شدہ قوم جس کی ایک شاخ عاد  ہے   ۔

"( القاموس الوحید ،صفحہ 120 ،مطبوعہ: کراچی )

جبکہ نام کا دوسرا لفظ ’’زاد‘‘  کا معنیٰ   لغت کے اعتبار سے ”زاد“ کے مختلف معانی ہیں:

پیدائش ، نسل، پیڑھی،جنا ہوا،مرکبات میں  جیسے، آدم زاد،"

(اردو لغت، فیروز اللغات، ، ص:391،ط:فیروز سنز لاہور)         

الزاد:توشہ ،زاد راہ،ضروریات،واخراجات سفر،راشن،اشیاء خوردنی،ذخیرہ عمل(خیر یا شر)"

( القاموس الوحید ،صفحہ 594 ، ط:ادارہ اسلامیات کراچی )

نیز یہ لفظ  زاد بطورفرع کےنام کے اخری حصہ شمار ہوتا ہے ،تونفس "ارم" نام اس کے ساتھ  زاد ہو یا نہ ہو ، بعض معانی کے اعتبار سے  رکھنا درست ہے، لیکن چوں کہ تباہ اور ہلاک شدہ قوموں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اس لیے یہ نام رکھنا مناسب نہیں ہے۔

 بہتر یہ ہے کہ بچوں اور بچیوں کے نام، انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات،صحابہ،صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین،تابعین اور دیگر بزرگوں کے نام پر رکھے جائیں۔ مزید راہ نمائی کے لیے ہماری ویب سائٹ پر  موجود اسلامی نام کے حصہ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي الدرداء رضي اللّٰہ عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنکم تدعون یوم القیامة بأسماء کم وأسماء آباء کم فأحسنوا أسماء کم."

(باب في تغییر الأسماء، ج:4، ص:442، ط:دار الکتاب العربي بیروت)

ترجمہ:"حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن تم اپنے اوراپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤگے لہٰذا اچھے نام رکھاکرو۔"

محیط برہانی میں ہے:

"روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: سموا أولادكم أسماء الأنبياء وأحب الأسماء إلى الله تعالى؛ عبد الله، وعبد الرحمن."

(كتاب الإستحسان والكراهية، ‌‌الفصل الرابع والعشرون في تسمية الأولاد وكناهم، ج:5، ص:382، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

ہندیہ میں ہے:

"وفي الفتاوى التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عباده ولا ذكره رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ولا استعمله المسلمون تكلموا فيه والأولى أن لا يفعل كذا في المحيط."

(کتاب الکراهیة، الباب الثاني والعشرون في تسمية الأولاد وكناهم والعقيقة، ج:5، ص:362، ط:دار الفکر بيروت)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"ويجوز التسمية بأكثر من اسم واحد، والاقتصار على اسم واحد أولى، لفعله صلّى الله عليه وسلم بأولاده".

(الفقه الاسلامی و ادلته،ج:4،ص:2753ط: دار الفکر)

تاج العروس میں ہے: 

"(و) {إرَمُ} وأَرامٌ (كَعِنَبٍ وسَحابٍ: والد عاد الأولىَ، أَو الْأَخيرة، أَو اسم بلدتهم) التي كانوا فيها، (أَو امهم او قبيلتهم) . مَنْ ترك صَرْفَ إِرَم جعله اسْما للقبيلة، (و) فِي التَّنْزِيل: {بعاد إرم ذَات الْعِمَاد} ، قَالَ الجوهريّ: من لم يضف، جعل إِرَمَ اسْمَه وَلم يصرفْه، لأنّه جعل عادا اسم ابيهم، وَمن قرأهُ بالإضافة ولم يصرفه جعله اسم أمهم أَو اسم بلدة. وقال ياقوت - نقلا عَن بَعضهم -: إِرَمُ لَا ينْصرف للتعريف والتانيث لأنه اسم قبيلة، فعلى هذا يكون التقدير: إِرَم صاحب ذات العماد، لان ذَات العماد مدينة، وقيل: ذات العماد وصف، كَذا تقول: القبيلة ذات الملك، وَقيل: إِرَمُ مدينةٌ، فعلى هَذَا يكون التَّقْدِير بعادٍ صاحبِ إِرَمَ. ويقرأُ: بِعادِ إِرَمَ ذات العماد، بالجر على الْإِضافة. ثمَّ اختلف فيهَا، مَنْ جعلهَا مَدينَة، فَمنهمْ من قَالَ هيَ أَرْض كَانَت وانْدَرَسَتْ، فَهِيَ لَا تُعْرَف، وَقيل: (دمشق) وهو الأكثر، وَلذلك قَالَ شبيب بن يزِيد بنِ النعْمان بنِ بشِير:
(لَوْلا الَّتي عَلِقَتْنِي من عَلائِقها ... لَمْ تُمْسِ لي إِرَمٌ دَارا وَلَا وَطَنا)
قَالُوا: أَرَادَ دِمَشْقَ، وَإِيَّاهَا أَرَادَ البُحْتَرِيُّ بِقَوْلِه:
(إِلَى إِرَمٍ ذاتِ العِماد وإنّها ... لَمَوْضِعُ قَصْدِي مُوجِفًا وَتَعَمُّدِي)
(أَو الإسْكَنْدَرِيّة) . وَحكى الزمخشريُّ: أنّ إِرَمَ بلدٌ مِنْهُ الإٍ سكندريّة. ورَوَى آخَرُونَ: أنّ إِرَمَ ذَات العِمادِ باليَمَنِ بَين حَضْرموتَ وَصَنْعاءَ من بِناءِ شَدّادِ بن عَاد، وذَكَرُوا فِي ذَلِك خَبرا طَويلا لم أذكرهُ هُنَا خشيَة المَلالِ والإطالَة".

 (تاج العروس ،ج: 31 ،ص: 206 ،ط: دار احیاء التراث )
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب


فتوی نمبر : 144503100055

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں