بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اقتداء کی صحت کے لیے کیا امام کی حالت سے باخبر ہونا ضروری ہے؟


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مسافر نے ایک امام کی اقتداء کی ، اور اس کو پہلے سے یہ معلوم نہیں تھا کہ امام مسافر ہے یا مقیم، لیکن آخر میں امام سے موافقت (یعنی دو رکعت پر سلام  پھیرنے) کی بناء پر معلوم ہوا کہ امام بھی مسافر ہے ۔

تو کیا اس مقتدی کی نماز درست ہوئی یا نہیں ؟  کیوں  کہ مقتدی کو پہلے سے امام کاحال ( مسافر یا مقیم ) معلوم ہونا شرط ہے، جبکہ بعض فقہی عبارات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام کا  حال ( مسافر یا مقیم )  معلوم ہونا شرط نہیں ہے ۔

شرط والى عبارت : "إذا اقتدى بالإمام لا يدرى أمسافر هو أو مقيم لا يصح ، لأن العلم بحال الإمام شرط ( البحر الرائق ج ۲/ ۲۳۸،  مكتبة رشيدية )

عدم شرط والی عبارت: "وأما إذا علموا بعد الصلاة بحال الإمام كان اقتداءهم جائزاً وإن لم يعلموا بحاله وقت الاقتداء به"

اسی طرح فتاوی عثمانیہ ج ۳/ ۷۸ اور نماز کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا ۱ / ۱۶۹،کے بیان ِمسئلہ میں سے بظاہر تعارض  معلوم ہوتا ہے۔

اب مذکورہ عبارات میں تطبیق بیان کرتے ہوئے مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

واضح  رہے کہ اقتداء کے صحیح ہونے کے لیے امام کی حالت سے باخبر ہونا ضروری ہے،  تاہم بوقت اقتدا باخبر ہونا شرط نہیں، نمازکے دوران کسی بھی وقت امام کی حالت کا علم ہوجانا صحت اقتدا کی لیے کافی ہے، فتاوی عثمانیہ اور نماز کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا میں مذکور مسئلہ میں کسی قسم کا تعارض نہیں۔

صورت مسئولہ میں مذکورہ مسافر کی نماز درست ہوجائے گی۔

فتاوی عثمانیہ میں ہے:

"سوال نمبر (56) ایک آدمی خود مقیم ہو اور وہ مسافر امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو لیکن اس کو ابتدا میں امام کے مسافر ہونے کا علم نہ ہو تو کیا ایسے امام کے پیچھے اقتدا درست ہوجائے گی؟،  بينوا توجروا

الجواب وبالله التوفيق: اس میں کوئی شک نہیں کہ مقتدی کے لیے امام کی حالت حضر و سفر سے باخبر ہونا ضروری ہے، اگر امام کی حالت کا علم نہ ہو تو اس کی اقتدا امام کے پیچھے درست نہیں ہوگی ، کیوں کہ امام کی حالت کا جاننا اقتدا  کی صحت کے لیے شرط ہے، تاہم ابتدا ہی سے اس کا جاننا ضروری نہیں بلکہ نماز کے درمیان یا امام کے سلام پھیرنے کے بعد امام کے اعلان سے حالت معلوم ہونے سے بھی یہ شرط پوری ہو جائے گی اور مقتدی کی نماز درست ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مسافر امام کو سلام پھیرنے کے بعد بآواز بلند لوگوں کو اعلانیہ طور پر اپنے مسافر ہونے کی خبر دینا ضروری ہے لیکن اگر مقتدی اپنی نماز کے اختتام تک امام کی حالت سے بے خبر رہا تو نماز فاسد ہو گی ۔

والدليل على ذلك:

إذا اقتدى بالإمام لا يدري أمسافر هو أم مقيم لا يصح؛ لأن العلم بحال الإمام شرط الأداء بجماعة، لا أنه شرط في الابتداء.

ترجمہ: امام کے پیچھے نماز پڑھے لیکن امام کے مسافر یا مقیم ہونے کی خبر نہ ہوتو یہ اقتدا درست نہیں، کیونکہ امام کی حالت کا جاننا جماعت کی نماز کی ادائیگی کے لیے شرط ہے لیکن ایسا نہیں کہ ابتداہی سے جانا شرط ہو۔"

(صلاة المسافر،  ۳ / ۷۸،ط: العصر اکیڈمی پشاور)

نماز کے مسائل کے انسائیکلو پیڈیا میں ہے:

"اقتداء صحیح ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ مقتدی کو امام کی حالت کا علم ہو یعنی امام مسافر ہے یا مقیم ، مقتدی کو اس کا علم ہونا چاہیئے ، خواہ نماز سے پہلے معلوم ہو یا نماز سے فارغ ہونے کے فورا بعد معلوم ہو، بہر صورت امام کی حالت معلوم ہونی چاہیئے ۔"

( امام کی حالت کا علم ہو، ۱ / ۱۶۹، ط: بیت العمار)

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"أن العلم بحال الإمام شرط لكن في حاشية الهداية للهندي الشرط العلم بحاله في الجملة لا في حال الابتداء.

(قوله لكن إلخ) ... وحاصله: تسليم اشتراط العلم بحال الإمام ولكن لا يلزم كونه في الابتداء فحيث لم يعلموا ابتداء بحاله كان الإخبار مندوبا وحينئذ فلا مخالفة فافهم وإنما لم يجب مع كون إصلاح صلاتهم يحصل به وما يحصل به ذلك فهو واجب على الإمام لأنه لم يتعين، فإنه ينبغي أن يتموا ثم يسألونه كما في البحر أو لأنه إذا سلم على الركعتين فالظاهر من حاله أنه مسافر حملا له على الصلاح، فيكون ذلك مندوبا لا واجبا لأنه زيادة إعلام كما في العناية.

أقول: لكن حمل حاله على الصلاح ينافي اشتراط العلم، نعم ذكر في البحر عن المبسوط والقنية ما حاصله: أنه إذا صلى في مصر أو قرية ركعتين، وهم لا يدرون فصلاتهم فاسدة وإن كانوا مسافرين لأن الظاهر من حال من كان في موضع الإقامة أنه مقيم والبناء على الظاهر واجب حتى يتبين خلافه، أما إذا صلى خارج المصر لا تفسد، ويجوز الأخذ بالظاهر وهو السفر في مثله. اهـ.

والحاصل أنه يشترط العلم بحال الإمام إذا صلى بهم ركعتين في موضع إقامة وإلا فلا."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ١ / ١٢٩، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506102700

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں