بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بریلوی، جماعت اسلامی اور غیرمقلد امام کی اقتداء کا حکم


سوال

اگر کسی فرد نے جماعت اسلامی ، اہل حدیث یا بریلوی امام کے پیچھے نماز پڑھ لی تو کیا اسے دوبارہ لوٹانا لازمی ہے ؟

اور اگر مقتدی اس وقت مسافر تھا اور اس نے بریلوی امام کے پیچھے عشاء کی نماز پڑھی ہو تو اب اس وقت کی نماز دوبارہ پڑھنے کی کیا صورت ہو گی پوری نماز پڑھنی ہے یا آدھی؟

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کی  اقتداء میں نماز کے جوازاورعدمِ جواز کا تعلق اس کے عقیدے اور نظریے سے ہے ؛ لہٰذا اگر امام( سوال میں مذکورہ کسی  بھی جماعت سے تعلق رکھنے والا ہو)  کا کوئی شرکیہ عقیدہ نہ ہو ، تو اس کي اقتداء میں نماز پڑھنا  منع نہیں ہے، البتہ پھر بھی احتیاط کرنا ضروری ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر  بریلوی امام  کا عقید ہ حدِکفر و شرک تک نہ پہنچتا  ہو، صرف بدعات میں مبتلا ہو  تو اس کی  اقتداءمیں نماز کراہت کے ساتھ جائز ہوگی  اورعقیدہ حدِکفر و شرک تک پہنچنےکی صورت میں جان بوجھ کر اس کی  اقتداء میں نمازپڑھنے سے نماز  نہیں ہوگی اور اگر  امام کا حال معلوم نہ ہو توکراہت کے ساتھ نماز ہوجائے گی۔لہذا جس مسافر نے کسی بریلوی امام کی اقتداءمیں نماز ادا کی ہے تو جب تک مذکورہ بریلوی  امام کے متعلق یقین سے معلوم نہ ہو کہ اس کا عقیدہ شرکیہ ہے تو اس کی  اقتداء میں ادا کی گئی نمازِ عشاء کا اعادہ لازم نہیں ہوگا۔

اسی طرح غیرمقلد اگر  ائمہ سلف کو بُرا بھلا نہ کہتا ہو اور مسائل میں مقتدیوں کے مذہب کی رعایت کرتا ہو، تو اس کے پیچھے نمازجائز ہوگی،اوراگر سلف صالحین اورائمہ کوبرابھلاکہتاہو اورمقتدیوں کے مذہب کی ان امور کی رعایت نہ رکھتا ہو جن پر نماز کا ہونا نہ ہونا موقوف ہو تواس کی  اقتداء میں نماز پڑھنادرست نہیں اور اگرامام کا حال معلوم نہ ہوتو کراہت کے ساتھ نماز ہوجائے گی ۔

جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے امام کا بھی یہی حکم ہے۔

خلاصہ یہ کہ صحیح عقیدے والے ،نیک صالح امام کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کی کوشش کریں۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره) قال المرغيناني تجوز الصلاة خلف صاحب هوى وبدعة ولا تجوز خلف الرافضي والجهمي والقدري والمشبهة ومن يقول بخلق القرآن وحاصله إن كان هوى لا يكفر به صاحبه تجوز الصلاة خلفه مع الكراهة وإلا فلا. هكذا في التبيين والخلاصة وهو الصحيح."

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:84، ط:دار الفكر بيروت)

مراقی الفلاح میں ہے:

"والرابع عشر من شروط صحة الاقتداء "أن لا يعلم المقتدي من حال إمامه مفسدا في زعم المأموم كخروج دم وقيء لم يعد بعده وضوءه ... حتى لو غاب بعدما شاهد منه ذلك بقدر ما يعيد الوضوء ولم بعلم حاله فالصحيح جواز الاقتداء مع الكراهة كما لو جهل حاله بالمرة وأما إذا علم منه أنه لا يحتاط في مواضع الخلاف يصح الاقتداء به سواء علم حاله في خصوص ما يقتدى به فيه أو لا وإن علم أنه يحتاط في مواضع الخلاف يصح الاقتداء به على الأصح."

(کتاب الصلاة، باب الإمامة، ص:112، ط: المكتبة العصرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما ‌الاقتداء ‌بالمخالف في الفروع كالشافعي فيجوز ما لم يعلم منه ما يفسد الصلاة على اعتقاد المقتدي عليه الإجماع، إنما اختلف في الكراهة. اهـ فقيد بالمفسد دون غيره كما ترى. وفي رسالة [الاهتداء في الاقتداء] لمنلا علي القارئ: ذهب عامة مشايخنا إلى الجواز إذا كان يحتاط في موضع الخلاف وإلا فلا."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:563، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101516

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں