بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اقامت میں دائیں اور بائیں منہ پھیرنا


سوال

اقامت میں سر پھیرنا سنت ہو نے کی دلیل کیا ہے؟

جواب

اگر سوال کا مقصد یہ ہے کہ اقامت کہنے والے کا اقامت میں ’’ حی علی الصلاۃ‘‘ اور ’’حی علی الفلاح‘‘ پر دائیں اور بائیں گردن موڑنے کا کیا حکم ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ : 

اذان میں’’ حی علی الصلاۃ‘‘ اور ’’حی علی الفلاح‘‘ پر دائیں اور بائیں گردن موڑنا  تو حدیث سے ثابت ہے، لیکن اقامت میں اس طرح کہنا ثابت نہیں،  اس لیے فقہاءِ کرام کی آراء اس میں مختلف ہیں: بعض فقہاء فرماتے ہیں اقامت اور اذان میں مماثلت ہے؛ اس لیے اقامت میں بھی  اذان کی طرح ’’حی علی الصلاۃ‘‘ اور ’’حی علی الفلاح‘‘ پر گردن پھیرناچاہیے، جب کہ دیگر فقہاء فرماتے ہیں کہ : اذان میں دور کے لوگوں کو باخبر کرنا مقصود ہے، اس لیے دائیں بائیں رخ کیا جاتا ہے، تاکہ ہر طرف مؤذن کی آواز پہنچ جائے، اقامت کا مقصد صرف مسجد میں موجود  لوگوں کو متوجہ کرنا ہے اور اس میں دائیں بائیں رخ کرنے کی حاجت نہیں، اور بعض نے اس میں تطبیق دی ہے کہ اگر جماعت کی جگہ کشادہ ہو تو اقامت میں بھی ان دونوں کلمات کے وقت دائیں بائیں پھیرنا چاہیے، ورنہ نہیں۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (1/ 272):
"(قوله: ويلتفت يمينًا وشمالًا بالصلاة والفلاح) لما قدمناه ولفعل بلال - رضي الله عنه - على ما رواه الجماعة، ثم أطلقه فشمل ما إذا كان وحده على الصحيح؛ لكونه سنة الأذان فلايتركه خلافًا للحلواني؛ لعدم الحاجة إليه، وفي السراج الوهاج: أنه من سنن الأذان فلايخل المنفرد بشيء منها، حتى قالوا في الذي يؤذن للمولود: ينبغي أن يحول. اهـ.
وقيد باليمين والشمال؛ لأنه لايحول وراءه لما فيه من استدبار القبلة، ولا أمامه لحصول الإعلام في الجملة بغيرها من كلمات الأذان، وقوله بالصلاة والفلاح لف ونشر مرتب، يعني أنه يلتفت يمينًا بالصلاة وشمالاً بالفلاح، وهو الصحيح خلافًا لمن قال: إن الصلاة باليمين والشمال والفلاح كذلك، وفي فتح القدير: أنه الأوجه، ولم يبين وجهه، وقيد بالالتفات؛ لأنه لايحول قدميه؛ لما رواه الدارقطني عن بلال قال: «أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أذّنّا أو أقمنا أن لانزيل أقدامنا عن مواضعها»، وأطلق في الالتفات ولم يقيده بالأذان، وقدمنا عن الغنية أنه يحول في الإقامة أيضًا، وفي السراج الوهاج: لايحول فيها؛ لأنها لإعلام الحاضرين بخلاف الأذان فإنه إعلام للغائبين، وقيل: يحول إذا كان الموضع متسعًا".

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 197):
"ويحول في الإقامة إذا كان المكان متسعًا وهو أعدل الأقوال كما في النهر".

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (1/ 92):
"وفي البستان: لايحول في الإقامة إلا لإناس ينتظرون، ذكره التمرتاشي. اهـ. كاكي".  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110200807

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں