بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اقامت کے کلمات کے آخر کے اعراب کا حکم


سوال

اقامت  کے کلمات کے آخر کو حرکت کے ساتھ پڑھنا، جیسے: "قد قامت الصلاۃ" کی تاءکو پیش کے ساتھ پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

اذان اور اقامت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ہر کلمہ کو آخر میں ساکن پڑھا جائے، اذان میں ہر کلمہ پر وقف کرے اور اقامت میں دو دو کلمات کے بعد وقف کرے، مگر پہلے کلمہ کو بھی  ساکن پڑھتے ہوئے ملائے، "قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةْ" بھی دو مرتبہ اسی طرح یعنی آخری "تاء" کے سکون کے ساتھ پڑھے، "تاء" پر پیش پڑھنا  سنت کے خلاف ہے۔

اذان اور اقامت میں دو تکبیروں کو ایک کلمہ شمار کیا جاتا ہے، اذان میں ہر دو تکبیروں میں پہلی تکبیر اور اقامت میں پہلی تین تکبیروں کی راء پر رفع (پیش) پڑھنا خلافِ سنت ہے، اس کو ساکن پڑھنا چاہیے یا مفتوح کرکے (زبر کے ساتھ) دوسری تکبیر کے ساتھ ملایاجائے۔"

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وفي الإمداد: ويجزم الراء أي يسكنها في التكبير قال الزيلعي: يعني على الوقف، لكن في الأذان حقيقة، وفي الإقامة ينوي الوقف اهـ أي للحدر، وروي ذلك عن النخعي موقوفا عليه، ومرفوعا إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «الأذان جزم، والإقامة جزم، والتكبير جزم»). اهـ."

(كتاب الصلاة، باب الأذان، 386/1، ط: سعيد)

وفیہ ایضًا:

"وحاصلها أن السنة أن يسكن الراء من " الله أكبر " الأول أو يصلها ب " الله أكبر " الثانية، فإن سكنها كفى وإن وصلها نوى السكون فحرك الراء بالفتحة، فإن ضمها خالف السنة؛ لأن طلب الوقف على " أكبر " الأول صيره كالساكن أصالة فحرك بالفتح."

(كتاب الصلاة، باب الأذان، 386/1، ط: سعيد)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ويسكن كلماتهما على الوقف لكن في الأذان حقيقة وفي الإقامة ينوي الوقف. كذا في التبيين."

(كتاب الصلاة، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في كلمات الأذان والإقامة وكيفيتهما، 56/1، ط: رشيدية)

البحرالرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"ويسكن كلمات الأذان والإقامة لكن في الأذان ينوي الحقيقة وفي الإقامة ينوي الوقف."

(كتاب الصلاة، باب الأذان، 271/1، ط: دار الكتاب الإسلامي)

احسن الفتاوٰی میں ہے:

"اذان اور اقامت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ہر کلمہ کو ساکن پڑھا جائے، اذان میں ہر کلمہ پر وقف کرے اور اقامت میں دو کلمات کے بعد، مگر پہلے کلمہ کو بنیتِ وقف ساکن پڑھے، "قد قامت الصلاة" بھی دو مرتبہ اسی طرح کہے، اذان اور اقامت میں دو تکبیروں کو ایک کلمہ شمار کیا جاتا ہے، اذان میں ہر دو تکبیروں میں پہلی تکبیر اور اقامت میں پہلی تین تکبیروں کی راء پر رفع پڑھنا خلافِ سنت ہے، اس کو ساکن پڑھنا چاہیے یا مفتوح کرکے دوسری تکبیر کے ساتھ ملایاجائے۔"

(کتاب الصلاۃ، باب الاذان والاقامۃ، 296/2، ط: سعید) 

فتاوٰی محمودیہ میں ہے:

"سوال: ایک شخص کہتا ہے کہ "قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ"،"قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ"("ۃُ" پر ضمہ کے ساتھ) پڑھا جائے گا، اس کے خلاف نہیں، ورنہ اقامت نہ ہوگی۔دوسرا شخص کہتا ہے کہ "قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةِ" پڑھا جائے گا یعنی "ۃِ" کسرہ کے ساتھ پڑھا جائے گا، ایک فریق دوسرے فریق کو کہتا ہے کہ تمہارے طریقے کے مطابق اقامت ادا نہ ہوگی، تو اب کس فریق کا اعتبار کیا جائے اور صحیح کیا ہے؟

الجواب حامدًا ومصلیًا:

آخروالی "تاء" وقف اور سکتہ کی حالت میں "ھا" ہوجائے گی، لہٰذا اس پر نہ پیش پڑھا جائے گا نہ زیر، اصل کے اعتبار سے اس پر پیش تھا جب کہ اس پر وقف و سکتہ نہ ہو، سکتہ کے بعد وہ ساکن ہے، زیر غلط ہے۔"

(کتاب الصلاۃ، باب الاقامۃ والتثویب، 468/5، ط: الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101273

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں