کیا اقامت کے بعد بات کرنا درست ہے؟
نمازیوں کو اقامت کے وقت اذان کی مانند خاموشی سے اقامت کو سنناچاہیے اور اقامت کے کلمات کا جواب دینا چاہیے، اذان و اقامت کے وقت آپس میں باتوں میں مصروف رہنا خلاف اولیٰ ہے۔ البتہ اگر کوئی خاص ضرورت ہو تو بات کرنے کی اجازت ہے۔ نیز اقامت کے بعد چوں کہ جماعت شرو ع ہوجاتی ہے؛ لہذا اقامت کے بعد نمازیوں کو امام کے ساتھ نماز میں شامل ہونا لازم ہے، آپس میں بات چیت میں مصروف ہونا جائز نہیں ہے۔
فقہاءِ کرام نے اقامت کے جواب دینے کومستحب کہا ہے، جس طریقے سے اذان کا جواب دیا جاتا ہے اسی طریقے سے اقامت کا جواب ہے، اور "قد قامت الصلاة " کا جواب "أَقَامَهَا اللّٰهُ وَأَدَامَهَا" سے دینا چاہیے۔
الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة (1/ 400):
"( ويجيب الإقامة ) ندباً إجماعاً ( كالأذان ) ويقول عند قد قامت الصلاة: أقامها الله وأدامها".
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (1/ 273):
"وفي فتح القدير: إن إجابة الإقامة مستحبة".
حاشیہ طحطاوی میں ہے :
"وحكى في التجنيس الإجماع على عدم كراهة الكلام عند سماع الأذان اهـ أي تحريماً وفي مجمع الأنهر عن الجواهر: إجابة المؤذن سنة. وفي الدرة المنيفة: أنها مستحبة على الأظهر". ( ص:202،ط: دار الکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144205200919
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن