ہمارے ہاں کچھ حضرات کی رائے یہ ہے کہ اقامت اگر بڑے اسپیکروں میں دی جائے تو اس سے باہر کے نمازیوں کو بھی نماز کے شروع ہونے کی اطلاع ملے گی تو اس سلسلے میں آپ حضرات سے سوال یہ ہے کہ اقامت مسجد کے باہر کے اسپیکروں میں دینا شرعاً کیساہے؟
واضح رہے کہ" اذان " نماز کے وقت کی خبر دینے کے لیے ہے اور اس کی کیفیت اس طرح مقرر کی گئی ہے کہ وہ بلند آواز کے ساتھ دی جائے ؛تاکہ مسجد کے آس پاس رہنے والے تمام لوگوں کو نماز کے وقت کاعلم ہوجائے، جب کہ اقامت کی مشروعیت مسجد میں آئے ہوئے لوگوں کو نماز کی جماعت شروع ہوجانے کی اطلاع دینے کے واسطے ہوئی ہے اور اس کی کیفیت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اذان کے مقابلے میں کم آواز کے ساتھ دی جائے ؛ کیوں کہ مقصود مسجد میں موجود لوگوں کو جماعت کے شروع ہونے کی اطلاع دینی ہے، اس لیے صورتِ مسئولہ میں اقامت کے لیے مسجد کے باہر کے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ازروئے شرع درست نہیں بلکہ مسجد کے اندرونی اسپیکروں میں ہی اقامت کہہ دینی چاہیے اور یہی حضورﷺ اور صحابہ وتابعین اور اسلاف کا طریقہ متواتر چلاآرہاہےاور اذان سے جب باہر کے لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع مل جاتی ہے اور لوگوں کو یہ معلوم بھی ہوجاتاہے کہ اذان کے کتنے منٹ کے بعد جماعت کھڑی ہوتی ہےتو پھر دوبارہ باہر کے لوگوں کی اطلاع کے لیے اقامت کا باہر کے اسپیکر پر کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"أما الذي يرجع إلى نفس الأذان فأنواع: منها - أن يجهر بالأذان فيرفع به صوته؛ لأن المقصود وهو الإعلام يحصل به ألا ترى أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لعبد الله بن زيد علمه بلالا فإنه أندى وأمد صوتا منك؟ ولهذا كان الأفضل أن يؤذن في موضع يكون أسمع للجيران كالمئذنة ونحوها."
(ج:1، ص: 149، ط: دارالکتب العلمية)
البحرائق میں ہے:
"وفي السراج الوهاج: لايحول فيها؛ لأنها لإعلام الحاضرين بخلاف الأذان فإنه إعلام للغائبين".
(ج:1، ص: 272، ط: دارالکتاب الاسلامي)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ومن السنة أن يأتي بالأذان والإقامة جهراً رافعاً بهما صوته إلا أن الإقامة أخفض منه. هكذا في النهاية والبدائع".
(ج:1، ص: 55، ط: دارالفکربیروت)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144508100580
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن