بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اقالہ میں رضامندی ضروری ہے


سوال

میں نے ایک مکان کی خریداری کا معاملہ کیا، جس کی مالیت گیارہ کروڑ پچیس لاکھ مقرر ہوئی اور میں اس مکان کا خریدار تھا۔معاملہ یوں طے ہوا کہ میں مالک کو 3 ماہ میں 5 کروڑ کی ادائیگی کروں گا اور اس 5 کروڑ کی ادائیگی کے بعد مجھے مکان کا قبضہ مل جاۓ گا، پھر اگلے 4 ماہ میں ان کو 4 کروڑ مزید ادا کروں گا، یعنی 7 ماہ میں 9 کروڑ کی ادائیگی طے ہوئی تھی، اور باقی سوا دو کروڑ کی رقم اگلے 12 ماہ میں دینے تھی، اور اس کے بعد مالک وہ مکان میرے نام پر منتقل کرنے کا پابند تھا۔پہلے دن جب ادائیگی کا وقت آیا تو میں نے ان کو 50 لاکھ کی رقم ادا کی اور پھر میرے والدین نے مجھے اس مکان کے خریدنے سے منع کردیاکہ یہ مکان تمہیں نہیں لینا۔اب جو 50 لاکھ کی رقم میں نے مالک کو دی ہےوہ اب تک مالک کے پاس ہی ہے، وہ مجھے واپس نہیں کررہا، سوال یہ ہے کہ وہ 50 لاکھ کی رقم شرعاً میرے لیے لینا جائز ہے تو میں اس کا مطالبہ کروں اور اگر یہ رقم میرے لیے لینا شرعاً لینا جائز نہیں اور مالک کا حق ہے تو میں مطالبہ سے دستبردار ہو جاؤں؟

وضاحت: بیچنے والا سودا کینسل کرنے پر راضی نہیں ہے، وہ کہہ رہا ہے کہ اب آپ کو خریدنا ہوگا۔

جواب

واضح رہے کہ سودا مکمل ہونے کے بعد بائع یعنی فروخت کنندہ یا خریدار میں سے کسی ایک کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ دوسرے کی رضامندی کے بغیر یک طرفہ طور پر سودا ختم کردے بلکہ بائع پر لازم ہے کہ وہ فروخت کی ہوئی چیز خریدار کے حوالے کرے اور خریدار پر ضروری ہے کہ وہ قیمت بائع کے حوالے کرے۔

جیسا کہ ’’الہدایہ‘‘ میں ہے:

"وإذا ‌حصل ‌الإيجاب والقبول لزم البيع ولا خيار لواحد منهما إلا من عيب أو عدم رؤية."

(كتاب البيوع، ج: 3، ص: 23، ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل پر لازم ہے کہ اولاً اس معاملے اور معاہدے کو مکمل کرے، ورنہ بصورت دیگر فروخت کنندہ کو اس پر راضی کرے کہ وہ اس خرید وفروخت کے معاملے کو منسوخ کردے اور اقالہ کرلے، یعنی فروخت کرنے والا بغیر کسی عوض اور جرمانے کے فقط اپنی چیز واپس لے کر لی ہوئی رقم واپس کردے، بائع اپنی زمین اور خریدار دی ہوئی رقم پر قبضہ کرلے، البتہ عقد منسوخ ہونے پر فروخت کنندہ کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ وصول شدہ رقم مکمل یا اس کا کچھ حصہ بطور جرمانے کے روک لے اور واپس نہ کرے، اس رقم کا روک لینا اس کے لیے جائز نہیں۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع ‌العربان»... أي البيع الذي يكون فيه ‌العربان في النهاية هو أن يشتري السلعة ويدفع إلى صاحبها شيئا على أنه إن أمضى البيع حسب وإن لم يمض البيع كان لصاحب السلعة ولم يرتجعه المشتري، وهو بيع باطل عند الفقهاء لما فيه من الشروط والغرر."

(كتاب البيوع، باب المنهي عنها من البيوع، ج: 5، ص: 1936، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن من شرائطها إتحاد المجلس ورضا المتعاقدين.

و في الرد : (قوله: ورضا المتعاقدين) لأن الكلام في رفع عقد لازم، وأما رفع ما ليس بلازم فلمن له الخيار بعلم صاحبه لا برضاه بحر."

(کتاب البيوع، باب الإقالة ، ج: 5 ،ص :121 ،ط: سعيد)

فتح القدیر میں ہے:

"لأن أحد المتعاقدین لا ینفرد بالفسخ کمالا ینفرد بالعقد.

(يصدقه لأن أحد المتعاقدين لا ينفرد ‌بالفسخ) فإنكاره إن كان فسخا من جهته لا يحصل به الإنفساخ."

 ( کتاب القضاء، باب التحکیم ،ج :7 ،ص :334 ،ط: دارالفکر لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309101406

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں