بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اقالہ میں فریق پیسے دینے میں تاخیر کررہا ہے


سوال

میں نے جو فتوی معلوم کیا ہے اس سلسلے میں وضاحت یہ ہے کہ جن صاحب سے میں نے یہ مکان خریدا تھا ، لیکن اب میں مکمل ادائیگی نہیں کررہا اور یہ سودا ختم کرنا چاہ رہا ہوں، تو ایسا نہیں ہے کہ بیچنے والا کینسل کرنے پر راضی نہیں، بلکہ بیچنے والے کا کہنا یہ ہے کہ ٹھیک ہے، اب یہ مکان میں کسی اور کو فروخت کروں گا اور جب یہ مکان بک جائے گا تب میں آپ کو پیسے دوں گا۔

کیا ان کا اس طرح معاملہ کرنا شرعاً جائز ہے یا ان کے ذمہ لازم ہے کہ وہ میرے پیسے واپس کردیں؟

جواب

واضح رہے کہ جب دو متعاقدین آپس میں کیے ہوئے سودے کو ختم کرنا چاہیں (اقالہ کریں) تو ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ دوسرے کی لی ہوئی چیز کو واپس کرے، یعنی خریدار کے اوپر لازم ہے کہ جو چیز اس نے خریدی ہے وہ اپنے فریق کو واپس کرے اور بیچنے والے کے اوپر لازم ہے کہ اس نے اس چیز کی جتنی رقم وصول کی ہے، خریدار کو وہ واپس کردے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل نے ایک گھر خریدا تھا اور بیچنے والے کے ساتھ بات کرکے اس سودے کو ختم کردیا تو اب بیچنے والے کے اوپر لازم ہے کہ اس نے جتنی رقم اس سودے میں وصول کی تھی وہ سائل کو واپس کرے،البتہ چوں کہ سائل کی طرف سے سودا ختم کیا گیا ہے اس لیے بیچنے والے کے پاس فوری ادائیگی کی صورت نہ ہو تو سائل کو چاہیے کہ نرمی سے کام لے اور اسے ادائیگی کے لیے کچھ مہلت دے ، فروخت کرنے والے کے پاس اگر ادائیگی کا انتظام ہو تو اسے بلاوجہ رقم واپس کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، بلا عذر ٹال مٹول کرنے سے وہ گناہ گار ہوگا۔

موطا امام مالک رحمہ اللہ میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «‌مطل ‌الغني ظلم، وإذا أتبع أحدكم على مليء فليتبع»."

(كتاب البيوع، باب جامع الدين والحول، ج: 2، ص: 674، ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے: 

"لو قال المشتري تركت البيع وقال البائع رضيت أو أجزت يكون إقالة كذا في الخلاصة."

(کتاب البيوع، الباب الثالث عشر في الإقالة، ج: 3، ص: 156، ط: دار الفكر بيروت)

ہدایہ میں ہے:

"‌‌باب الإقالة "الإقالة جائزة في البيع بمثل الثمن الأول" لقوله عليه الصلاة والسلام: "من أقال نادما بيعته أقال الله عثرته يوم القيامة" ولأن العقد حقهما فيملكان رفعه دفعا لحاجتهما" فإن شرطا أكثر منه أو أقل فالشرط باطل ويرد مثل الثمن الأول". والأصل أن الإقالة فسخ في حق المتعاقدين بيع جديد في حق غيرهما."

(کتاب البیوع، باب الإقالة، ج: 3، ص: 55، ط: دار الإحياء التراث العربي بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144310101064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں