بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اقالہ کرنے کی صورت میں مشتری سے مبیع کا کرایہ لینا


سوال

 میں نے ایک گاڑی 20 لاکھ میں فروخت کی،خریدار نے نقد رقم کچھ بھی نہیں دی، بلکہ کہا کہ دو ماہ کے بعد پانچ لاکھ روپے دوں گا اور باقی ہر مہینے کے تیس ہزار دوں گا، خریدار نے دو تین ماہ گزرنے کے بعد بھی پیسے نہیں دیے، اب وہاں کے مقامی ایک ٹرانسپورٹر نے اور مقامی خطیب نے یہ فیصلہ کیا کہ تم گاڑی واپس لے لو،  کیوں کہ یہ شخص تمہیں رقم ادا نہیں کر رہا اور   آئےروز کا مطالبہ اور قضیہ اچھا نہیں ہے، جب کہ خریدار غریب آدمی بھی نہیں ، بلکہ کروڑوں کا مالک ہے، چناں چہ خریدار نے بخوشی گاڑی واپس کر دی ،جب گاڑی واپس ہوئی تو اس خریدار نے ایک سو گیارہ دن میری گاڑی استعمال کی جو کہ شہزور لوڈر گاڑی تھی اور اس پر اس نے اپنے کاروبار کو بھی آگے بڑھایا فرنیچر وغیرہ بھی لاتا تھا اور رینٹ پر بھی وہ گاڑی دیتا تھا، گاڑی میں تقریبا ایک لاکھ چور، پھر وہ گاڑی دوسری جگہ پر 15 لاکھ 60 ہزار کی فروخت کی،اب طے یہ ہوا کہ ایک سو گیارہ دن کا دو ہزار یومیہ کےحساب سے دو لاکھ 22 ہزار روپے مجھے وہ گاڑی کا کرایہ دے گا ،کیوں کہ اس نے گاڑی استعمال کی تھی اور ساتھ گاڑی بھی واپس دے گا، ٹرانسپورٹر بھائی نے کہا کہ تم اس کو 12 ہزار چھوڑ دو باقی ۲۱۰۰۰۰ لے لو،  چناں چہ وہ رقم کچھ سامان کی شکل میں اور تھوڑی سی نقدی  کی صورت میں وصول ہو  گئے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ وہ پیسے لینے میرے لیے جائز ہیں کہ نہیں ؟اگر جواب مثبت میں ہے پھر تو ٹھیک،اگر منفی میں ہے تو اس نے جو 111 دن میری گاڑی استعمال کی اس کے نقصان کا ذمہ دار کون ہو گا ؟ اب جب کہ ہمارے درمیان فیصلہ ہو چکا ،ادائیگی ہو چکی ، پھر وہ لوگوں سے کہتا ہے کہ اس نے مجھ سے سود لیا ۔آیا اس میں کوئی سود کی صورت بنتی ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے  20 لاکھ میں گاڑی ادھار ادائیگی پر فروخت کردی تھی تو اس معاملہ کے بعد خریدار گاڑی کا مالک ہوگیا تھا گو کہ اس نے اب تک مکمل ادائیگی نہیں کی تھی، پھر کچھ دن گاڑی استعمال کرنے کے بعد جب قسط وقت پر ادا نہیں کی  اور سائل اور خریدار دونوں نے گاڑی کی خریداری کا معاملہ ختم کردیا تو شرعا یہ اقالہ ہوگیا اور اقالہ کے بعد اب یہ گاڑی واپس سائل کی ملکیت میں چلی گئی اور خریدار سے ادائیگی معاف ہوگئی، لہذا خریداری کے بعد اور اقالہ سے پہلے جتنے ایام خریدار نے گاڑی استعمال کی اور اس گاڑی سے جو آمدن حاصل کی وہ اس نے اپنی مملوکہ چیز سے فائدہ اٹھایا تو سائل کے لیے ان ایام کے استعمال پر خریدار سے دو ہزار یومیہ کرایہ لینا شرعا جائز نہیں ہے  اور یہ رقم سائل کے لیے حلال نہیں ہوگی اور واپس کردینا ضروری ہے۔اور اگر یہ صورت اختیار کرتے کہ خریدار کی اجازت سے اس کو آگے فروخت کردیتے اور فروخت کرنے کے بعد جو رقم ملتی اگر وہ سائل کی بقیہ رقم کے برابر ہوتی تو اتنی رقم سائل کے لیے لینا جائز ہوگا  اور اگر وہ رقم کم ہوتی تو بقیہ رقم پہلے نمبر کے خریدار سے لینا جائز ہوتا لیکن سائل نے ایسا نہیں کیا بلکہ گاڑی کو خود واپس لے لیا ہے لہذا زائد رقم کسی بھی نام سے جائز نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي حاشية الخير الرملي على الفصولين: وقد سئلت في مبيع استغله المشتري هل تصح الإقالة فيه فأجبت بقولي: نعم وتطيب الغلة له والغلة اسم للزيادة المنفصلة كأجرة الدار وكسب العبد، فلا يخالف ما في الخلاصة من قوله رجل باع آخر كرما فسلمه إليه فأكل نزله يعني ثمرته سنة ثم تقايلا، لا تصح وكذا إذا هلكت الزيادة المتصلة أو المنفصلة أو استهلكها الأجنبي اهـ."

(کتاب البیوع باب الاقالۃ ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۲۵،دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404102127

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں