بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اقالہ کی فضیلت اور خیارِ شرط


سوال

کپڑے کے بارے میں معلوم کرنا ہے میں نے کہ میں جہاں سے مال خرید رہا ہوں،  وہاں سے مجھے اس طرح کی کوئی آفر نہیں دی گئی کہ اگر آپ کا مال نا بکے تو  آپ واپس کر دیں، البتہ یہ ضرور کہا گیا ہے کہ ایک ہفتے کے اندر آپ ایکسچینج کراسکتے ہیں، لیکن میں اگر کسی کو یہ ہول سیل ریٹ پر دیتا ہوں یا بیچتا ہوں تو  میں اس کو  اگر سنت کی رو سے یہ کہوں کہ دیکھنا چاہو گے یہ تین دن کے اندر آپ کا مال بکتا ہے یا نہیں بکتا تو آپ اس کو واپس بھی کر سکتے ہیں، تو  کیا یہ صحیح ہے؟  اس کے بارے میں مجھے ذرا آگاہی چاہیے !

جواب

واضح رہے کہ ایک ہے ’’خیارِ شرط‘‘  اور ایک ہے ’’اِقالہ‘‘۔  خیار شرط  اسے کہتے ہیں کہ خریدار یا بیچنے والا اس شرط پر معاملہ کرے کہ وہ تین دن کے اندر معاملہ ختم بھی کر سکتا ہے جس پر فریقین راضی ہوں تو اگر معاملہ ختم کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ آئے (مثلاً چیز ہلاک نہ ہو، یا خریدار نے اس میں تصرف نہ کیا ہو وغیرہ) تو شرط لگانے والا اس معاملہ کو تین دن میں ختم کر سکتا ہے۔ جب کہ ’’اِقالہ‘‘  اسے کہتے ہیں کہ ایک سودا پورا ہو چکا اور اب کسی بھی وجہ سے خریدار یا بیچنے والا اس معاملہ کو ختم کرنا چاہتا ہے اور دوسرا فریق اس کی رعایت کرتے ہوئے اس پر راضی ہوجاتا ہے۔

اقالہ کرنے میں دوسرے فریق کی رعایت کرتے ہوئے جو معاملہ ختم کیا جاتا ہے، اس پر حدیث میں فضیلت ہے کہ جو کسی مسلمان کی رعایت کرتے ہوئے اپنا سودا ختم کرتا ہے تو اللہ اس کی کوتاہیوں کو قیامت کے دن ختم کردیں گے۔ نیز اقالہ کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے تین دن کے اندر معاملہ ختم کرنا شرط نہیں ہے، بلکہ تین دن کے بعد بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ ثواب کے ارادے سے دوسرے شخص سے ایسا معاملہ کرتے ہیں تو یہ درست ہے۔

سنن ابن ماجه (2 / 741):
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أقال مسلمًا، أقاله الله عثرته يوم القيامة»". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109200889

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں