بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اقالہ میں عقد اول سے زیادہ پیسے لینے کا حکم


سوال

ہم نے ایک سو بیس گز کا پلاٹ بیچا، جس کی قیمت پچپن لاکھ پچاس ہزار روپے تھی، دوست نے اکیس لاکھ روپے ادا کیے،باقی ساڑھے چوبیس لاکھ روپے بقایا تھے، جس کی ادائیگی کی مدت پانچ ماہ مقرر تھی، پانچ ماہ سے بھی پانچ چھ دن اوپر ہوگئے، ہم نے خود اس سے ملاقات کی ، تو اس دوست نے کہا کہ رقم کا بندوبست  مجھ سے نہ ہوسکا،ہم نے اس دوست سے کہا کہ آپ ہمیں کچھ مدت کا ٹائم دے دیں، ہم آپ کی رقم (یعنی اکیس لاکھ روپے)واپس ادا کردیں گے، تو اس نے کہا آپ اب اس پلاٹ کی رقم بڑھا کر واپس کریں یعنی اکیس لاکھ روپے کے بجائے تینتیس لاکھ روپےدیں، اتنے  عرصے سے میری رقم بند تھی، حال آں کہ اس نے پلاٹ کی رقم ابھی پوری ادا نہیں کی ، اب ہم دونوں کے لیے یہ رقم جائز ہے یا نہیں؟یعنی کیا میرے لیےیہ رقم دینا اور دوست کے لیے اوپر کی رقم لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے جب اپنا پلاٹ اپنے دوست کو پچپن لاکھ پچاس ہزار روپےمیں پیچا، جس میں سے اکیس لاکھ روپے سائل کا دوست ادا کرچکا تھا اور ساڑھے چوبیس لاکھ روپے سائل کے دوست پر   ادا کرنا لازم تھا، اب اگرسائل کے مطالبہ پر سائل کا دوست اس معاملہ کو ختم کرنا چاہتا ہے تو سائل کا دوست سائل سے صرف اکیس لاکھ روپےکا مطالبہ کرسکتا ہے، اکیس لاکھ روپےکے بجائے تینتیس لاکھ روپے کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، سائل کے لیے زائد رقم دینا اور سائل کے دوست کے لیے زائد رقم لینا نا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم ذكر لكونها فسخا فروعا (ف) الأول أنها (تبطل بعد ولادة المبيعة) لتعذر الفسخ بالزيادة المنفصلة بعد القبض حقا للشرع لا قبله مطلقا ابن مالك (و) الثاني (تصح بمثل الثمن الأول وبالسكوت عنه).

(قوله: وبالسكوت عنه) المراد أن الواجب هو الثمن الأول سواء سماه أو لا، قال في الفتح: والأصل في لزوم الثمن، أن الإقالة فسخ في حق المتعاقدين، وحقيقة الفسخ ليس إلا رفع الأول كأن لم يكن فيثبت الحال الأول، وثبوته برجوع عين الثمن إلى مالكه كأن لم يدخل في الوجود غيره وهذا يستلزم تعين الأول، ونفي غيره من الزيادة والنقص وخلاف الجنس اهـ"

(کتاب البیوع، باب الإقالة،ج:5،ص:125،ط:سعيد)

فتح القدیر میں ہے:

"لأن أحد المتعاقدین لا ینفرد بالفسخ کمالا ینفرد بالعقد.

(يصدقه لأن أحد المتعاقدين لا ينفرد ‌بالفسخ) فإنكاره إن كان فسخا من جهته لا يحصل به الإنفساخ."

 ( کتاب القضاء، باب التحکیم،ج:7،ص:334،ط: دارالفکر لبنان)

وفیہ ایضاً:

"الإقالة جائزۃ فی البیع بمثل الثمن الأوّل فإن شرط أکثر منه أو أقل فالشرط باطل ویرد مثل الثمن الأول."

(کتاب البیوع ،باب الإقالة،ج: 6،ص:486 ،ط: دارالفکر لبنان)

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"فعلى هذا إذا تقايل المتبايعان البيع بعد قبض ثمن المبيع فيجب رد مثل الثمن أو مقداره الذي اتفق عليه حين العقد.

ولو كان المقبوض أجود أو أدنى من ذلك ولا فائدة في أن يشترط حين الإقالة أن يدفع الثمن من جنس آخر أو ينقص للندامة أو لأسباب أخرى أو أن يزاد الثمن أو يرد بدل غيره أو يؤجل كما أن السكوت حين الإقالة عن الثمن لا يضر شيئا يعني أن كل ما يشترط في الإقالة من ذلك فهو باطل والإقالة صحيحة؛ لأن حقيقة الفسخ رفع الأول بحيث يكون كأن لم يكن فعلى ذلك تثبت الحال الأولى وثبوت هذه الحال يقتضي رجوع عين الثمن لمالكه الأول وعدم دخوله في ملك البائع رد المحتار.

مثال ذلك: إذا باع رجل من آخر مالا بخمسين ريالا وبعد أن قبض الثمن تقايلا البيع واتفقا على أن يدفع البائع للمشتري خمسة وأربعين ريالا عوضا عن الثمن الذي قبضه فالإقالة صحيحة وعلى البائع أن يرد الخمسين ريالا للمشتري دون زيادة ولا نقصان."

(البيوع،الفصل الرابع في إقالة البيع،حكم الإقالة،ج:1،ص:172،ط:دار الجيل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403101482

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں