بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انویسٹر کا کاروبار کرنے والے شخص کو خریدنے کا کہنا اور رقم کی ادئیگی بعد میں کرنے کا حکم


سوال

میں ایک مسئلے میں رہنمائی لینا چاہتاہوں ،  کہ ہم شپنگ کی خدمات فراہم کرتے ہیں،  جن میں کچھ ہمارے کنٹینرز بھی ہوتے ہیں اور کچھ کنٹینرز ہمارے انویسٹر کے بھی ہوتے ہیں ،  جو لوگ اپنا مال یا سامان وغیرہ ایک ملک سے دوسرے ملک بحری جہازوں کے ذریعے بھیجنا چاہتے ہیں  ، ہم ان کو یہ سہولت فراہم کرتے ہیں کہ ان کا سامان یا مال مطلوبہ منزل تک پہنچادیتے ہیں  ،  کچھ دن قبل ہمارے پرنسپل (انویسٹر)نے ہمیں کہا کہ " آپ ہمارے لئے کچھ کنٹینرز خرید کر اسے اپنے کاروباری سائیکل میں استعمال کرنا شروع کردیں اور اسکا میٹرڈاؤن کردیں یعنی اس سے جو فائدہ حاصل ہوگا اس میں میرابھی حصہ ہوگا میں کچھ عرصے کے بعد ان کنٹینرزکی ادائیگی کردونگا" ،  میں نے یہ سوچ بھی لیا تھا کہ جب ان کے پیسے آئینگے تو ان کے لیے  اچھے اورسستے  کنٹینرز خریدوں گا  ،    ان کے متعلق ایک حکمتِ عملی بھی وضع کر لی تھی،  اس دوران ہم یعنی شپنگ کمپنی نے کئی کنٹینرز خریدے  ، خریدتے وقت یہ نیت نہیں تھی کہ ہم نے کس کے لئے خریدے ، خریدنے کےبعدلازمی طورپر کسی کو تو اسکا مالک بنا نا ہوتاہے یا تو کمپنی مالک ہوتی ہے یا وہ انویسٹر مالک ہوتے ہیں جنہوں نے ہمیں انویسٹمنٹ کی یقین دہانی کرائی ہوتی ہے۔

اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہم نے کچھ کنٹینرز چائنا سے ایران کی جانب سامان سے لوڈکرکے روانہ کردئیے ہیں اور میٹر ڈاؤن ہو چکاہے اوران کو روانہ ہوئے چند دن بھی ہوچکے ہیں ، ہم یہ چاہتےہیں کہ ان کنٹینرز کو پرنسپل کے لئے قراردے دیں جنہوں نے ہمیں انویسٹمنٹ کی  یقین  دہانی کرائی تھی اور ادائیگی کے لئے کچھ عرصے کی مہلت مانگی تھی، تو کیا وہ کنٹینرز ان انویسٹر کی ملکیت میں آگئے؟

کیا اب ہم ان کو اس نفع میں شریک کرسکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں چونکہ سائل اور انویسٹر  (سرمایہ کاری کرنے والا) کے درمیان باقاعدہ شرکت کا معاملہ نہیں ہوا ، نہ ہی سائل نے ان کے لیے وکالتاً کنٹینر خریدے ، لہذا مذکورہ کنٹینر سائل (خریدنے والا) ہی کے ملکیت ہوں گے ، نیز جب سائل اور انویسٹر کے درمیان شرکت متحقق نہیں ہوئی  لہذا وہ (انویسٹر) منافع میں بھی شریک نہیں البتہ اگر سائل اپنی خوشی و رضامندی سے مذکورہ انویسٹر کو کچھ دینا چاہیے تو یہ تبرع یعنی نیکی و احسان کا معاملہ ہوگا۔

الدّر المختار  میں ہے:

"والربح ‌إنما ‌يستحق ‌بالمال ‌أو ‌بالعمل ‌أو ‌بالضمان ا. هـ."

(‌‌كتاب المضاربة، ج:5، ص:646، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: والربح إلخ) ‌حاصله ‌أن ‌الشركة ‌الفاسدة ‌إما ‌بدون ‌مال ‌أو ‌به ‌من ‌الجانبين ‌أو ‌من ‌أحدهما، ‌فحكم ‌الأولى ‌أن ‌الربح ‌فيها ‌للعامل."

(‌‌كتاب الشركة، فصل في الشركة الفاسدة، ج:4، ص:326، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما ‌شرط ‌جوازها ‌فكون ‌رأس ‌المال ‌عينا ‌حاضرا ‌أو ‌غائبا ‌عن ‌مجلس ‌العقد لكن مشارا إليه، والمساواة في رأس المال ليست بشرط ويجوز التفاضل في الربح مع تساويهما في رأس المال، كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الشركة، الباب الثالث، الفصل الأول، ج:2، ص:319، ط:رشيدية)

فتح القدير شرح ہدایہ  میں ہے :

"لأن الربح إنما يستحق برأس المال أو بالعمل أو بضمان العمل ولم يوجد من ذلك شيء، انتهى كلامه."

(كتاب المضاربة، باب المضارب يضارب، فصل في العزل والقسمة، ج:8، ص:466، ط:مطبعة مصفى البابي الحلبي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409101585

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں