بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انتقال تک رہائش کی شرط کے ساتھ مکان وقف کرنا


سوال

ہمارا ایک مکان ہے جو ہم کسی ادارے کو وقف کرنا چاہتے ہیں تاکہ صدقۂ جاریہ رہے، ہم دونوں میاں بیوی اس مکان کے مالک ہیں اور ہماری کوئی اولاد نہیں ہے اور یہ مکان ہم نے اپنے ذاتی پیسوں سے بنایا ہے، میرا ایک بھائی جو فوت ہوگیا ہے، اس کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، میری بیوی کے تین بھائی تھے، ایک بھائی فوت ہوگیا ہے اور دو حیات ہیں، میری بیوی کی چھ بہنیں تھیں، تین زندہ ہیں اور تین فوت ہوگئی ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ ہمارے جو بھائی بہن حیات ہیں کیا وقف کرنے میں ان کی اجازت کی ضرورت ہے، ہمارے بھتیجے سب صاحبِ حیثیت ہیں، شریعت کے مطابق فتوی دیں تاکہ ہم اسے وقف کرسکیں!

(ملاحظہ) مکان کو ہم اپنی زندگی میں وقف کردیں گے، لیکن ہم اس گھر میں رہیں گے ہمارے مرنے کے بعد ادارہ اس کا مالک ہوگا۔

جواب

اگر آپ دونوں اپنا مملوکہ مکان اپنی زندگی میں کسی دینی ادارے کو وقف کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، باقی اگر آپ دونوں انتقال تک اسی گھر میں رہنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی میں یہ مکان وقف کردیں اور ساتھ میں یہ شرط بھی لگادیں کہ ہم دونوں انتقال تک اسی گھر میں رہیں گے، ایسی صورت میں وقف بھی صحیح ہوجائے گا اور انتقال تک اسی گھر میں رہائش کی گنجائش بھی رہے گی ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"في الذخيرة إذا وقف أرضا أو شيئا آخر وشرط الكل لنفسه أو شرط البعض لنفسه ما دام حيا وبعده للفقراء قال أبو يوسف - رحمه الله تعالى -: الوقف صحيح ومشايخ بلخ رحمهم الله تعالى أخذوا بقول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - وعليه الفتوى ترغيبا للناس في الوقف وهكذا في الصغرى والنصاب، كذا في المضمرات."

(كتاب الوقف، الباب الرابع فيما يتعلق بالشرط في الوقف، 2/ 298،397، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌شرط ‌الواقف ‌كنص ‌الشارع."

(كتاب الوقف،366/4، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100244

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں