بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انتقال کے بعد موحوم کے اہل خانہ کا پہلی عید نہ منانا


سوال

جس سال میت کا انتقال ہوا ہوتا ہے اس کے بعد پہلی عید کو گھر والے انتقال کی وجہ سے عید کی تیاری نہیں کرتے اور عید کو لوگ بھی گھر آتے ہیں تو لوگوں کا ہی آنا کیسا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کی فوتگی پر تین دن سے زیادہ سوگ منانے کی اسلام میں اجازت نہیں ہے،اور یہ سوگ منانا بھی فی نفسہ جائز ہے،واجب نہیں ،سوائے اس عورت کے لیے جس کا خاوند انتقال کرجائے تو اس کے لیے چار ماہ دس دن سوگ منانا واجب ہے۔لہذا جب وفات کو تین دن ہوجائیں تو معمول کے مطابق عید کی خوشی اور دیگر امور انجام دینے چاہییں، چالیسویں اور پہلی عید وغیرہ تک سوگ منانے کی روایت غیر اسلامی ہے،اس طرح کی رسموں کو معاشرے سے ختم کردینا چاہیے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مردوں کی تدفین اور تعزیت کرنے والوں کو رخصت کرکے حسبِ معمول اپنے کام کاروبار وغیرہ  میں مشغول ہوجاتے تھے۔ باقی اگر رشتہ دار مرحوم کے اہل خانہ کے گھر ان کی خوشی  اور دل جوئی کے لیے عید کے دن آتے ہیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں،عام طور پر عید کے دن رشتہ دار ایک دوسرے کے گھر جاتے ہیں،تحفہ تحائف کا لین دین ہوتا ہے،یہ سب صلہ رحمی میں سے ہے،اس سے آپس میں محبت والفت قائم رہتی ہے۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین  میں ہے:

"ويباح الحداد على قرابة ثلاثة أيام فقط.

(قوله: ويباح الحداد إلخ) أي حديث الصحيح «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تحد فوق ثلاث إلا على زوجها فإنها تحد أربعة أشهر وعشرا» فدل على حمله في الثلاث دون ما فوقها، وعليه حمل إطلاق محمد في النوادر عدم الحل كما أفاده في الفتح."

(كتاب الطلاق، باب العدۃ،فصل فی الحداد،ج3،ص533،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100721

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں