ہمارے یہاں کچھ جگہوں پر جب کسی کا انتقال ہوجا تاہے، تو امام صاحب کو میت والوں کے یہاں تین دن مسلسل رہنا ہوتا ہے، تین دن گزر جانے کے بعد امام صاحب کو اجرت دی جاتی ہے، کیا وہ اجرت لینا اور دینا جائز ہے؟
کسی کی وفات کے بعد تین دن کے اندر تعزیت کرنا مسنون ہے اور مسنون تعزیت کے بعد مزید اہلِ میت کے یہاں سے لوٹ جانا چاہیے اور تین دن تک میت کے گھر رہنا بدعت ہے، جو کہ ناجائز ہے، شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں امام کا انتقال کے بعد میت کے گھر پر تین دن تک رہنا اور اس پر اجرت کی لین دین کرنا ناجائز ہے۔
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:
"ووقتها من حين يموت إلى ثلاثة أيام، وأولها أفضل، وتكره بعدها؛ لأنها تجدد الحزن وهو خلاف المقصود منها؛ لأن المقصود منها ذكر ما يسلي صاحب الميت ويخفف حزنه ويحضه على الصبر كما نبهنا الشارع على هذا المقصود في غير ما حديث قوله: "من حلل الكرامة" أي الدالة على تكريم الله تعالى إياه، وقد حث الشارع المصاب على الصبر والاحتساب وطلب الخلف عما تلف."
(كتاب الصلاة، ص:618، ط:دار الكتب العلمية)
رد المحتار میں ہے:
"فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون اهـ."
(کتاب الإجارۃ، مطلب في الاستئجار على المعاصي، ج: 6، صفحہ: 56، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407101102
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن