بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انتخابات کے قریب نمائندے کا لوگوں کی امداد کرنے کا حکم


سوال

الیکشن کے قریب ایک پارٹی کا نمائندہ خود ایک علاقہ میں آکر امداد کے نام پر لوگوں میں سر عام پیسہ تقسیم کرتا ہے،  حالانکہ  کسی زمینی اور آسمانی آفت میں وہ  موجود نہیں  ہوتا ، کیا یہ امداد میں شمار ہوگا یا رشوت؟

جواب

واضح رہے کہ  ووٹ جمہوری نظام میں رائے شماری کے عمل کا نام ہے، جس کا  مقصد ملکی نظام اور عوامی نمائندگی کے لئے مناسب نمائندہ کا انتخاب کرنا ہے، اگر کوئی اس رائے کے آزادانہ استعمال کے بجائے کسی اور سے رائے تبدیل کرانے کی کوشش کرے یا کرانے کا حربہ استعمال کرے اور اس کے لئے روپیہ پیسہ دےتو یہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے، لہذا  کسی بھی نام سے  کوئی روپیہ یا کوئی مال لے کر کسی کو ووٹ دینا یا دلوانا  یا کسی کے لئے راہ  ہموار کروانا ناجائز ہے  اور  یہ رقم لینا اور اس کی بنیاد پر ووٹ دینا دونوں حرام ہیں، البتہ اگر کوئی واقعۃً امداد کے نام سے رقم دیتا ہے اورووٹ دینے کے لیے کہہ کر نہیں دیتا تو پھر اس شخص کی طرف سے امداد لینے کی گنجائش ہے، ہاں اگر ووٹ دینے کے لیے کہہ کر دے تو رشوت ہے لینا جائز نہیں ہے۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لعن الله الراشي والمرتشي في الحكم".

قال أبو بكر: اتفق جميع المتأولين لهذه الآية على أن قبول الرشا محرم، واتفقوا على أنه من السحت الذي حرمه الله تعالى ."

(سورة المائدة، باب قطع السارق، ج:2، ص:541، ط:دار الكتب العلمية)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیحمیں ہے:

"٣٧٥٣ - وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال: «لعن رسول الله الراشي والمرتشي» رواه أبو داود، وابن ماجه.

أي: معطي الرشوة وآخذها، وهى الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلما فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة ; لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلا يجوز لهم الأخذ عليه، كذا ذكره ابن الملك، وهو مأخوذ من كلام الخطابي إلا قوله: وكذا الآخذ، وهو بظاهره ينافيه الحديث الأول من الفصل الثالث الآتي. قال التوربشتي: وروي أن ابن مسعود أخذ في شيء بأرض الحبشة فأعطى دينارين حتى خلي سبيله."

( كتاب الإمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهداياهم،الفصل الثاني، ج:7، ص:295، ط:دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507102291

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں