بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ہندوستان کے کالج کے طلباء داڑھی کٹا سکتے ہیں؟


سوال

انڈیا میں  ایک کالج میں پڑھنے والا لڑکا جو کہ  بالغ ہے، عمر 19 سال ہے، اور داڑھی ابھی کہیں کہیں نکلنی شروع ہی ہوئی ہے، لڑکا سنت و شریعت کا پابند ہے، لیکن کالج کی طرف سے داڑھی رکھنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے ، اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر داڑھی  نہیں کٹائی تو فیل کر دیں گے، اور حالات ایسے ہیں کہ کالج بھی نہیں بدلا جا سکتا اور لڑکا بڑا محنتی ہے، گھر کے حالات کمزور ہیں، اکیلا بھائی ہے گھر میں، اس  لیےآپ حضورِ والا سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ اس میں شریعت کی طرف سے کیا گنجائش ہے؟ جواب دےکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

جواب

واضح رہےکہ داڑھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، تمام انبیاء کرام علیہم السلام،  اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی مشترکہ سنت ہے، اور صرف سنت نہیں بلکہ واجب ہے، اور واجب کو بلاعذر ترک کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعتِ سے محرومی کا سبب ہے، لہٰذا  داڑھی منڈانا یا قینچی سے کاٹ کر ایک مشت سے کم کردینا شرعاً جائز نہیں۔

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ لڑکے کا داڑھی کٹانا یا منڈانا شرعاً جائز نہیں ہے، ہر مسلمان پر اتنا علم سیکھنا فرض ہے جس سے وہ روز مرہ کی زندگی میں حلال حرام، پاکی ناپاکی، اور جائز وناجائز کی تمیز کرسکے، دنیاوی تعلیم حقیقتاً علم نہیں ہے، بلکہ یہ ایک فن ہے، دنیاوی تعلیم پر علم کا اطلاق محض لغوی اعتبار سے ہے۔ لہٰذا دنیاوی علوم کے حصول کے لیے داڑھی جیسی عظیم سنت کو ختم کرنے، اسے منڈانے یا ایک مشت سے کم کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہوگی، کالج والوں پر لازم ہے کہ مسلمان طلبہ پر اس قسم کی پابندی نہ لگائیں، اگر وہ اس پابندی کو ختم نہ کریں تو وہ  کسی دوسرے کالج میں تعلیم حاصل کرے، نیز ملحوظ رہے کہ معاش وضروریاتِ زندگی کی تکمیل دنیاوی تعلیم پر موقوف نہیں ہے۔

فتح القدیر میں ہے:

"وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة ‌ومخنثة ‌الرجال فلم يبحه أحد."

(كتاب الصوم، باب ما يوجب القضا، ٢/ ٣٤٨، ط: دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لكن في التلويح ترك ‌السنة المؤكدة قريب من الحرام يستحق حرمان الشفاعة، لقوله - عليه الصلاة والسلام -: «من ترك سنتي  لم ينل شفاعتي»اهـ. وفي التحرير: إن تاركها يستوجب التضليل واللوم.اهـ. والمراد الترك بلا عذر على سبيل الإصرار كما في شرح التحرير لابن أمير حاج، ويؤيده ما سيأتي في سنن الوضوء من أنه لو اكتفى بالغسل مرة إن اعتاده أثم، وإلا لا."

(١/ ١٠٤، کتاب الطهارة، ط:سعید)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال(9420): میرا ایک دوست ہے جس کا نام محمود احمد ہے اور انگریز مسلمان ہے، اس کو داڑھی کا بہت شوق ہے، لیکن چوں کہ انگریزی فوج میں ہے، لہٰذا اس کو داڑھی رکھنے کا حکم نہیں ہے۔ اس کے بارے میں وہ جاننا چاہتا ہے کہ شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب: حق تعالیٰ آپ کو اور آپ کے دوست کو عافیت سے رکھے، اپنی مرضیات پر عمل کی توفیق دے۔ داڑھی رکھنا اور اس کو بڑھانا شرعاً واجب ہے، حدیث شریف میں اس کا حکم آیا ہے، ایک مشت تک پہونچنے سے پہلے کاٹنا اور ایک مشت سے کم کرالینا جائز نہیں ... جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی دولت عطا فرمائی ہے تو صورت وشکل وضع قطع بھی اسلامی ہی چاہیے، ایک سکھ نے فوج میں ملازمت کی درخواست کی اور شرط کی داڑھی نہیں منڈاؤں گا، اس کی درخواست منظور ہوئی۔ آپ کے انگریز دوست بھی اس کی کوشش کرلیں۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، باب خصال الفطرۃ، ١٩/ ٤١٤، ط: دار الافتاء جامعہ فاروقیہ)

محدث العصر علامہ محمد یوسف بنوری ؒ فرماتے ہیں:

"جدید تعلیم اور اس کا مقصد:

قدیم اصطلاح میں تو دینی علم ہی علم کہلانے کا مستحق تھا، دنیاوی علوم کو فنون یا ہنر سے تعبیر کیا جاتا تھا، مگر آج کی اصطلاح یہ ہوگئی ہے کہ قدیم علوم کے ما ہر کو عالم کہا جاتا ہے اور جدید علوم کے ما ہرین کو تعلیم یافتہ کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ امریکہ اور یورپ وغیرہ کے جو ممالک جد ید علوم کے امام ہیں وہاں آج بھی کسی تعلیم یا فتہ کے لیے ضروری نہیں کہ وہ کسی اسکول میں ٹیچر، کسی کالج میں پروفیسر یا سرکاری دفتر میں ملازم ہو، بلکہ وہاں تعلیم کا مقصد ہنرو کمال کی تحصیل سمجھا جاتا ہے، تاکہ ہر شعبۂ حیات میں ہنر وکمال کے مالک افراد موجود ہوں۔ ان ممالک میں ٹیکسی ڈرائیور اور بسوں کے کنڈیکٹر بھی گریجویٹ ہوتے ہیں۔ یہ کہیں بھی نہیں سمجھا جاتا کہ بی اے یا ایم اے ہونے کے بعد دکان پر بیٹھنا یا کارخانے میں جانا یا ڈرائیور بننا باعث تو ہین ہے، پھر نہ معلوم ہمارے ملک میں یہ کیوں ضروری سمجھ لیا گیا ہے کہ جو شخص تعلیم یافتہ یا گریجویٹ ہو اس کے لیے سر کاری ملا زمت لازم ہے، ورنہ اس کی حق تلفی اور اس کی ڈگری کی توہین متصوّر ہوگی ۔     

بر طانوی دور میں اس جدید تعلیم کا مقصد بلاشبہ یہی سمجھایا گیا تھا کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے تیار ہونے والے افراد سرکاری مشینری کے کل پرزے بنیں گے، کیوں کہ اس اجنبی ملک میں حکومت کی انتظامی ضرورت پوری کر نے کے لیے اُن کو ایک ایسی نسل کی ضرورت تھی جس سے ان کی حکومت کا کاروبار چل سکے، وہ انگلستان سے اتنے انگر یز یہاں نہیں لا سکتے تھے کہ اتنے بڑے بَرِّ کوچک کا تمام کام سنبھال سکیں، انہیں دنیا کے دوسرے ممالک پر بھی حکمرانی کرنی تھی۔ کلیدی مناصب تو ضرور وہ اپنوں ہی کو دیا کرتے تھے یا پھر اُن کو جو سو فیصد ان کے حاشیہ برداربن جائیں، مگر نیچے درجہ کے لیے انہیں یہیں سے آدمی مہیا کرنے تھے۔ علاوہ ازیں اس جد ید تعلیم سے انگر یز کا ایک بڑا مقصد یہ تھا کہ ہند وستانی لوگ انگریزی تہذیب وتمدن کے اتنے دلدادہ ہوجائیں کہ ظا ہر وباطن میں انگر یز ہی انگر یز نظر آئیں اور لارڈ میکالے کی پیش گوئی پوری ہوجائے۔     

الغرض یہ ذہنیت انگر یزی دور کی پید اوارہے کہ تعلیم حاصل کرنا صرف ملازمت کے لیے ہے ۔۔۔ آج کی تمام تعلیم، تمام تربیت اور تمام تہذیب کا خلاصہ یہ ہے کہ حیوانی زندگی کے تقاضے کیسے پورے کیے جائیں، دین جاتا ہے تو جائے، اخلاق مٹتے ہیں تو مٹیں، انسانیت پامال ہوتی ہے تو ہو، مگر ہمارے حیوانی تقاضے اور نفسانی خواہشات بہر حال پوری ہونی چاہئیں، نہ دین سے تعلق،نہ اخلاق سے واسطہ،نہ انسانیت کا شعور، نہ افکار صحیح، نہ خیالات درست، نہ خدا کا خوف، نہ آخرت کی فکر، نہ مخلوق سے حیا۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون ۔۔۔  ہم بار ہا ان صفحات میں صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ آخرت کی نجات اور دنیا کی سعادت صرف اسلامی تعلیمات اور اسلامی ہدایات واحکامات میں مضمر ہے، اس کے سو اخسارہ ہی خسارہ ہے، تعلیم کا مقصد روح کی بالیدگی، نفس کی پاکیزگی، سیرت وکردار کی بلندی اور ظا ہر وباطن کی طہارت ونظافت ہونا چاہیے اور یہ جب ہی ہو سکتا ہے کہ اس تعلیمی قالب میں دینی روح بطور مقصد جلوہ گر ہو اور جب تم اپنے وسائل کی پوری قوت سے دین کو ختم کررہے ہو اور دین کا مضحکہ اڑاکر اُسے رسو ا کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہو تو اس کے بد تر ین نتائج کے لیے بھی تیار رہو۔ خرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم"

(ماہنامہ بینات شوال المکرم ١٤٣٦ھ،  مقالات ومضامین،  صفحہ نمبر: ١٤، ط: جامعۃ العلوم الاسلامیۃ)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں