بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انٹر ویو میں جھوٹ کی اجازت نہیں


سوال

 میں 2013 میں ایک سرکاری ادارے میں بھرتی ہوا جہاں میں نے تقریبا ایک سال دس مہینے نوکری کی جس کے بعد 2015 میں مجھے اس سرکاری ملازمت سے برطرف/برخاست کرکے نوکری سے فارغ کرکے نکال دیا گیا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میں جس ادارے میں بھی انٹرویو دیتا ہوں وہ جب انٹرویو میں سابقہ نوکری اور تجربے کے حوالے سے پوچھتے ہیں تو میں انہیں جواب میں سچ تو بتا نہیں سکتا کہ مجھے سابقہ نوکری سے نکال دیا گیا تھا؛  کیوں کہ نوکری سے نکالے جانے کا سن کر وہ مجھے نوکری نہیں دیں گے، لہذا میں جواب میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے سرکاری نوکری خود چھوڑی تھی،  جب کہ یہ تو جھوٹی بات ہے؛ کیوں کہ میں نے تو نوکری نہیں چھوڑی، بلکہ  مجھے نوکری سے  نکالا گیا تھا۔

میری  اس سلسلے میں  رہنمائی فرمائیں کہ  مجھے جواب  میں کیا کہنا چاہیے کہ میں جھوٹ سے بھی بچ سکوں اور مجھے وہ ملازمت بھی مل جائے؟ اگر آپ یہ تجویز کرتے ہیں کہ میں نوکری سے نکالے جانے کے بجائے نوکری چھوڑنے ہی کا کہوں تو پھر وہ یہ پوچھتے ہیں کہ نوکری کیوں چھوڑی؟ اس نوکری کیوں چھوڑنے والے سوال کا پھر میں کیا جواب دوں؟ ازراہِ کرم مخلصانہ رہنمائی فرمائیں۔ ساتھ ہی   باعزت روزگار کے حصول میں درپیش رکاوٹوں کی دوری اور مشکلات کی آسانی اور جلد نوکری ملنے کے لیے دل سے دعا بھی کردیں!

جواب

واضح رہے کہ جھوٹ بولنا گناہِ کبیرہ ہے، جھوٹ کی عادت انسان کو فسق و فجور کے راستے پر ڈال دیتی ہے ، صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ سچ بولنا انسان کو نیکی کے راستے پر ڈال دیتا ہے ، اور نیکی جنت تک پہنچا دیتی ہے ، اور آدمی جب ہمیشہ سچ ہی بولتا ہے ، اور سچائی ہی کو اختیار کر لیتا ہے تو وہ مقام صدیقیت تک پہنچ جاتا ہے ، اور اللہ کے یہاں صدیقین میں لکھ لیا جاتا ہے ، اور جھوٹ بولنے کی عادت آدمی کو بدکاری کے راستے پر ڈال دیتی ہے اور بدکاری اس کو دوزخ تک پہنچا دیتی ہے اور آدمی جھوٹ بولنے کا عادی ہو جاتا ہے اور جھوٹ کو اختیار کر لیتا ہے ، تو انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے یہاں کذابین لکھ لیا جاتا ہے ۔ 

لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے لیے جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے، نیز اگر ایک بار جھوٹ بول دیا تو اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے دوبارہ اور سہ بارہ جھوٹ بولنا پڑے گا جو قطعاً حرام ہے،لہذا جھوٹ بولنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، اگر کسی ادارے میں جھوٹ بولے بغیر ملازمت نہ ملے تو پھر متبادل ملازمت یا کام کی کوشش کی جائے۔ روزانہ پانچوں نمازوں کی پابندی کریں اور روزانہ"لا حول ولا قوة إلا بالله"   500 مرتبہ پڑھ کر دعا کیا کریں۔

صحیح بخاری میں ہے:

"6094 - حدثنا ‌عثمان بن أبي شيبة: حدثنا ‌جرير، عن ‌منصور، عن ‌أبي وائل، عن ‌عبد الله رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن الصدق يهدي إلى البر، وإن البر يهدي إلى الجنة، وإن الرجل ليصدق حتى يكون صديقا، وإن الكذب يهدي إلى الفجور، وإن الفجور يهدي إلى النار، وإن الرجل ليكذب حتى يكتب عند الله كذابا".

(‌‌باب قول الله تعالى {يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين} وما ينهى عن الكذب، 8/ 25، ط: السلطانية،المطبعة الكبرى الأميرية)

وفيه أيضاً:

"33 - حدثنا ‌سليمان أبو الربيع قال: حدثنا ‌إسماعيل بن جعفر قال: حدثنا ‌نافع بن مالك بن أبي عامر أبو سهيل، عن ‌أبيه، عن ‌أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: آية المنافق ثلاث: ‌إذا ‌حدث ‌كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان".

(‌‌‌‌كتاب الإيمان، باب علامة المنافق، 1/ 16 ، أيضاً)

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

"عبد الرزاق، عن معمر، عن رجل، من قريش قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم : إذا دخل عليه بعض الضيق في الرزق أمر أهله بالصلاة، ثم قرأ هذه الآية {وأمر أهلك بالصلاة واصطبر عليها} [طه: 132] ".

(‌‌كتاب الصلاة، باب الصلاة من الليل، 3/ 49، ط: المجلس العلمي، ت الأعظمي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101491

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں