بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انٹرنیٹ کا غلط استعمال کرنے سے انٹرنیٹ کا کنیکشن دینے والا گناہ گار نہ ہوگا


سوال

میں نے گھر میں انٹرنیٹ لگوایا ہے  اور ایک آدھ ہمسائے کو بھی کنکشن دیا ہے، اب ان کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے،  جس کی وجہ سے وہ گانے، ڈرامے، فلمیں یا اوٹ پٹانگ دیکھتے ہوں گے، میں نے جو انٹرنیٹ دیا ہے ان کو ان کا یہ سب دیکھنے میں تو شریک نہیں ہوا یا ہوگیا،  مثلاً گانا سننے سے گناه ملتا ہے، وہ میرے دیے ہوئے یا میرے ذریعے سے دیے ہوئے انٹرنیٹ سے سنتے ہیں وہ گناہ میرے ذمے تو نہیں لگیں گے.کیوں کہ میں نے بھی ادارہ پی ٹی سی ایل سے لیا ہے. وہ اپنا لگوا کر خود دیکھیں تو ان کی اپنی ذمہ داری ہے ان کا علیحدہ مسئلہ ہے. مجھے شک بس یہی بات کا ہے کہ یہ درست ہے یا نہیں، کیوں کہ وہ میرے ذریعے سے ہی وہ سب دیکھ رہے،  اگر ان کا اپنا ہوتا تو اپنی مرضی ہوتی  ان کی،لہذا اپنے علم کے مطابق مجھے  میرے  اس سوال کا جواب دیں۔

جواب

واضح رہے کہ انٹرنیٹ کا استعمال صحیح مقاصد کے لیے بھی ہوتاہے،اور ناجائز مقاصد کے لیے بھی  ،اس لیے انٹرنیٹ کنیکشن لے کر جو غلط استعمال کرے گا   اس کے گناہ کا ذمہ دار وہ خود  ہوگا،   کنیکشن دینے والے پر اس کا گناہ نہیں ہوگا ،باقی اگر کسی کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ گناہ کے کاموں کے لیے انٹرنیٹ کی  لائن لینا چاہتا ہےتو جان بوجھ کر ایسے آدمی کو انٹرنیٹ کی لائن دینا مکروہ ہوگا،ایسی صورت میں ایسے آدمی کو لائن نہ دیا جائےورنہ جرم میں شریک ہوگا۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمرا) لأن المعصية لا تقوم بعينه بل بعد تغيره وقيل يكره لإعانته على المعصية ......(بخلاف بيع ‌أمرد ممن يلوط به وبيع سلاح من أهل الفتنة) لأن المعصية تقوم بعينه ثم الكراهة في مسألة الأمرد مصرح بها في بيوع الخانية وغيرها واعتمده المصنف على خلاف ما في الزيلعي والعيني وإن أقره المصنف في باب البغاة. قلت: وقدمنا ثمة معزيا للنهر أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريما وإلا فتنزيها. فليحفظ توفيقا."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج6،ص391،ط؛سعید)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"[ ‌‌(المادة 90) إذا اجتمع المباشر والمتسبب أضيف الحكم إلى المباشر].

(المادة 90) :إذا اجتمع المباشر والمتسبب أضيف الحكم إلى المباشر هذه القاعدة مأخوذة من الأشباه. ويفهم منها أنه إذا اجتمع المباشر أي عامل الشيء وفاعله بالذات مع المتسبب وهو الفاعل للسبب المفضي لوقوع ذلك الشيء ولم يكن السبب ما يؤدي إلى النتيجة السيئة إذا هو لم يتبع بفعل فاعل آخر، يضاف الحكم الذي يترتب على الفعل إلى الفاعل المباشر دون المتسبب وبعبارة أخصر يقدم المباشر في الضمان عن المتسبب.

تعريف المباشر - هو الذي يحصل التلف من فعله دون أن يتخلل بينه وبين التلف فعل فاعل آخر."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية،ج1،ص91،ط؛دار الجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101943

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں