بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انٹرنیشنل کرکٹ میچ کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے


سوال

میرا ایک دوست  احمدہےجو انٹرنیشنل کرکٹ کھیلتا ہے، کل اس کا انٹر نیشنل سطح پرمیچ ہے تو اس کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کل میچ کے لیے آپ کو روزہ نہیں رکھنا ہوگا ۔لیکن اگر روزہ رکھ لیا تو ان کو میچ میں نہیں کھلایا جائے گا۔اگر اس نے روزہ نہیں رکھا تو کیا اس کو اللہ کی طرف سے معافی نہیں ملے گی۔یا اس کا کفارہ ادا کرنا ہوگا؟  اور کفارہ کیا ادا  کرنا ہوگا؟

جواب

انٹرنیشنل کرکٹ میچ روزہ چھوڑنے کا عذر نہیں ہے، اگر احمد نے کرکٹ میچ کی وجہ سے روزہ چھوڑا تو وہ سخت گناہ  کا مرتکب ہوگا اور روزہ کی قضا لازم ہوگی کفارہ نہیں ہے، اگر روزہ رکھ کر درمیان میں توڑ دیا تو قضا کے ساتھ کفارہ بھی لازم ہوگا۔

کفارہ یہ ہے کہ مسلسل ساٹھ روزے رکھے جائیں درمیان میں ایک روزے کا بھی ناغہ نہ کیا جائے، اگر درمیان میں ایک روزہ بھی چھوڑ دیا تو نئے سرے سے ساٹھ روزے رکھنا لازم ہوگا ۔ اگر روزے رکھنے کی استطاعت نہیں ہے تو ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلایا جائے۔

البتہ اگر احمد مسافر ہے تو اس کو سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔واضح رہے کہ شرعی طور پر مسافر کے احکام اس وقت لاگو ہوں گے جب اپنے  شہر  سے کم از کم اڑتالیس میل(77.24 کلومیٹر)  یا اس سے زیادہ مسافت کا سفر کیا ہو اور کسی شہر میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ رکنے کی نیت نہ ہو، اگر سفر کی مسافت اپنے شہر سے اڑتالیس میل سے کم ہے یا مسافت تو زیادہ ہے لیکن کسی دوسرے شہر میں پندرہ دن رکنے کی نیت کر لی ہے تو مسافر کے احکام لوگو نہیں ہوں گے اور ایسی صورت میں  روزہ ترک کرنا حرام ہوگا۔

الدر المختار میں ہے:

"(لمسافر) سفرا شرعيا ولو بمعصية (أو حامل... الفطر)".

وفي الرد:

"(قوله لمسافر) خبر عن قوله الآتي الفطر وأشار باللام إلى أنه مخير ولكن الصوم أفضل إن لم يضره كما سيأتي (قوله سفرا شرعيا) أي مقدرا في الشرع لقصر الصلاة ونحوه وهو ثلاثة أيام ولياليها، وليس المراد كون السفر مشروعا بأصله ووصفه بقرينة ما بعده (قوله ولو بمعصية) لأن القبح المجاور لا يعدم المشروعية كما قدمه الشارح في صلاة المسافر ط".

(‌‌‌‌كتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، 2/ 421، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"كفارة الفطر، وكفارة الظهار واحدة ، وهي عتق رقبة مؤمنة أو كافرة فإن لم يقدر على العتق فعليه صيام شهرين متتابعين، وإن لم يستطع فعليه إطعام ستين مسكينا كل مسكين صاعا من تمر أو شعير أو نصف صاع من حنطة، وإنما يعتبر حال المكفر في جميع الكفارات وقت الأداء لا وقت وجوبها فإن كان وقت الأداء معسرا يجزيه الصيام، وإن كان موسرا وقت الوجوب كذا في الخلاصة".

(كتاب الصوم، المتفرقات، 1/ 215، ط: رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فأما صوم رمضان فيتعلق بفساده حكمان أحدهما: وجوب القضاء، والثاني: وجوب الكفارة، أما وجوب القضاء: فإنه يثبت بمطلق الإفساد سواء كان صورة ومعنى، أو صورة لا معنى، أو معنى لا صورة، وسواء كان عمدا، أو خطأ، وسواء كان بعذر، أو بغير عذر...

وأما وجوب الكفارة فيتعلق بإفساد مخصوص وهو الإفطار الكامل بوجود الأكل أو الشرب أو الجماع صورة ومعنى متعمدا من غير عذر مبيح ولا مرخص ولا شبهة الإباحة ".

(كتاب الصوم، فصل:وأما حكم فساد الصوم، 2/ 97، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100902

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں