بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انتخابات سے پہلے امیدوار سے تحفہ لینے کا حکم


سوال

اگر کوئی امیدوار بڑا مالدار ہو اور وہ ووٹ سے پہلے جب کہ انتخابات کا اعلان ہوا ہو اور وہ بندہ خود بھی امیدوار ہو اور خاص و عام میں مدارس مساجد میں بہت زیادہ رقوم تقسیم کرتا ہے، اور اشیاء خوردونوش بھی بطور تحفہ تقسیم کرتا ہے،بعض علماء اس کو تحفہ سمجھ کر خود بھی لیتے ہیں،اور دوسروں کو بھی دلواتے ہیں، جب کہ امیدوار بعض دفعہ لوگوں سے ووٹ کا مطالبہ بھی کرتا ہے،بعض جگہ منصوبے کےلیے بہت زیادہ نقد رقم دیتا ہے اور ووٹ دینے کی شرط پر منصوبہ مکمل کرنے کا وعدہ کرتا ہے،اب سوال یہ ہے کہ ایسے موقع پر تحفہ لینا دینا شرعاً جائز ہے، اور ایسے امیدوار کو ووٹ دینا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  ووٹ جمہوری نظام میں رائے شماری کے عمل کا نام ہے، جس کا  مقصد ملکی نظام اور عوامی نمائندگی کے لئے مناسب نمائندہ کا انتخاب کرنا ہے، اگر کوئی اس رائے کے آزادانہ استعمال کے بجائے کسی اور طریقہ سے رائے تبدیل کرانے کی کوشش کرے یا ایسا کوئی حربہ استعمال کرے اور اس کے لئے روپیہ پیسہ دےتو یہ رشوت کے زمرے میں آتا ہے،لہذاصورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ افعال امیدوار کی طرف سے ووٹرز کی رائے اپنے طرف کرنے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے،لہٰذاانتخابات کے دنوں میں  اس قسم کے تحائف اور رقوم لینے سے اجتناب کر نا چاہیے،البتہ اگر کوئی  امید وار واقعۃً تحفہ کے نام سے رقم دیتا ہے ، اور ووٹ دینے کے معاملےکو ووٹروں کی صواب دید پر چھوڑتا ہےتو پھراس شخص کی طرف سے تحائف لینے کی گنجائش ہے،اور ووٹ دینے کے بدلے میں دیتا ہے تو یہ رشوت ہونے کی وجہ سے لینا دینا جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات ملاحظہ ہوں:

احكام القرآن للقرطبى میں ہے:

"‌من ‌أخذ ‌مال غيره لا على وجه إذن الشرع فقد أكله بالباطل."

(سورة البقرة، آيت:188، ج:2، ص:338، ط: دار الكتب المصرية)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لعن الله الراشي والمرتشي في الحكم."

قال أبو بكر: اتفق جميع المتأولين لهذه الآية على أن قبول الرشا محرم، واتفقوا على أنه من السحت الذي حرمه الله تعالى ."

(سورة المائدة، باب قطع السارق، ج:2، ص:541، ط: دار الكتب العلمية)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال: «لعن رسول الله الراشي والمرتشي» رواه أبو داود، وابن ماجه.

أي: معطي الرشوة وآخذها، وهى الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلما فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة ; لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلا يجوز لهم الأخذ عليه، كذا ذكره ابن الملك، وهو مأخوذ من كلام الخطابي إلا قوله: وكذا الآخذ، وهو بظاهره ينافيه الحديث الأول من الفصل الثالث الآتي. قال التوربشتي: وروي أن ابن مسعود أخذ في شيء بأرض الحبشة فأعطى دينارين حتى خلي سبيله."

(كتاب الإمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهداياهم، الفصل الثاني، ج:7، ص:295، ط: دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100747

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں